انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل اضافی محصولات میں کٹوتیوں کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ امریکی برآمدات کو انڈیا میں بڑھایا اور ممکنہ تجارتی جنگ سے بچا جا سکے۔
ٹرمپ کے اقتصادی مشیر کیون ہیسیٹ نے پیر کو کہا کہ ’انڈیا میں زیادہ محصولات ہیں جو درآمدات کو محدود کرتے ہیں اور مودی کے پاس ٹرمپ سے ملاقات کے دوران بات چیت کے لیے بہت کچھ ہوگا۔‘
محصولات میں کٹوتیوں کے علاوہ نریندر مودی بدھ سے شروع ہونے والے دو روزہ امریکی دورے کے دوران توانائی اور دفاعی درآمدات میں اضافے کی تجویز پیش کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ وہ پیر کو تمام سٹیل اور ایلومینیم درآمدات پر 25 فیصد نئے محصولات نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو موجودہ محصولات کے علاوہ ہوں گے۔
ٹرمپ منگل (آج) یا بدھ کو جوابی محصولات کا اعلان کریں گے جو فوری طور پر نافذ العمل ہوں گے۔
صدر ٹرمپ نے پہلے انڈیا کو تجارت میں ’بہت زیادہ ناجائز فائدہ اٹھانے والا‘ ملک قرار دیا تھا۔
کیون ہیسٹ نے سی این بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو جوابی محصولات عائد کرنے چاہیئں جو کم از کم اتنے ہی ہوں جتنے دوسرے ممالک عائد کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر دوسرے ممالک اپنے تجارتی محصولات کم کریں گے، تو امریکہ بھی ایسا کرے گا۔‘
انڈین حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انڈیا امریکہ کے لیے کم از کم ایک درجن شعبوں میں محصولات میں کمی پر غور کر رہا ہے، جن میں الیکٹرانکس، طبی اور جراحی آلات اور کیمیکل شامل ہیں تاکہ امریکی برآمدات کو فروغ اور نئی دہلی کے مقامی پیداوار کے منصوبوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
انڈیا کی وزارتِ تجارت، وزارتِ خارجہ اور وزیرِاعظم کے دفتر نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
انڈیا اور امریکہ کے درمیان عسکری گاڑیوں کی خریداری اور مشترکہ پیداوار اور لڑاکا طیاروں کے انجن کے معاہدے کو حتمی شکل دینے پر بھی کام ہو رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے گذشتہ ماہ مودی سے فون پر مزید امریکی ساختہ سکیورٹی آلات خریدنے اور ’منصفانہ تجارتی تعلقات‘ کی طرف بڑھنے پر زور دیا تھا۔
پیر کو ایک بیان میں مودی نے کہا کہ ’امریکہ کا یہ دورہ ہمارے تعاون کی کامیابیوں کو آگے بڑھانے کا ایک موقع ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی، تجارت، دفاع، توانائی اور سپلائی چین کی مضبوطی وہ شعبے ہیں جن میں شراکت داری کو مزید گہرا اور بلند کیا جا سکتا ہے۔
گذشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور واشنگٹن نئی دہلی کو چین کے بڑھتے ہوئے علاقائی اثر و رسوخ کے خلاف توازن کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
انڈین سرکاری حکام نے بتایا کہ وہ ان اشیا پر رعایت دینے پر غور کر رہے ہیں جو انڈیا بنیادی طور پر امریکہ سے درآمد کرتا ہے یا جن کی خریداری کا زیادہ امکان ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان مالی سال 2023-24 میں دو طرفہ تجارت 118 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی جس میں امریکہ کا تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تھا۔
مختصر تجارتی معاہدہ
انڈین حکام کے مطابق ٹرمپ کے ساتھ محصولات پر گفتگو کے علاوہ انڈیا ایک ممکنہ مختصر تجارتی معاہدے پر بھی بات کرنے کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مودی کا یہ دورہ ’امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ جیسی صورت حال سے بچنے‘ کے لیے ہے۔
یہ ملاقات حال ہی میں امریکہ سے انڈین شہریوں کی ملک بدری کے معاملے کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔
ٹرمپ پہلے ہی چین سے درآمدات پر 10 فیصد کے وسیع محصولات عائد کر چکے ہیں جس کے جواب میں بیجنگ نے امریکی توانائی کی مصنوعات پر جوابی محصولات لگا دیے ہیں۔
انڈیا کے حالیہ بجٹ میں کئی اشیا پر اوسط درآمدی محصولات کو 13 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دیا گیا، اس کے علاوہ مہنگی موٹر سائیکلوں اور لگژری کاروں پر ٹیکس میں بھی کمی کی گئی ہے۔
انڈیا 30 سے زائد اشیا پر سرچارجز کا بھی جائزہ لے رہا ہے جن میں لگژری کاریں اور سولر سیلز شامل ہیں۔
اگر صدر ٹرمپ 25 فیصد کا مجوزہ محصول نافذ کرتے ہیں تو انڈیا کی تقریباً 25 ارب ڈالر کی انجینئرنگ مصنوعات کی برآمدات خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
انڈیا کے عہدیدار نے بتایا کہ ’ہم انتظار اور مشاہدے کی پوزیشن میں ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وزیرِاعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا۔‘
ٹرمپ کے سٹیل اور ایلومینیم پر محصولات کے منصوبے کی خبر کے بعد انڈین شیئر مارکیٹ میں دھاتوں کے شعبے میں سب سے زیادہ نقصان ہوا۔
انڈیا کے بینچ مارک انڈیکس 0.8 فیصد گر گئے جبکہ دھاتوں کے انڈیکس میں تین فیصد کمی دیکھی گئی۔