اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کے نواحی علاقے میں تین بسوں میں دھماکے ہوئے، جنہیں ممکنہ شدت پسندوں کا حملہ قرار دیا جا رہا ہے، جب کہ پولیس ملزمان کی تلاش میں مصروف ہے۔
یہ دھماکے تل ابیب کے جنوب میں واقع بت یام نامی علاقے میں کھڑی بسوں میں ہوئے، جہاں بسوں میں نصب کیے گئے دھماکہ خیز مواد کو ریموٹ کنٹرول سے اڑایا گیا۔
اسرائیلی پولیس کے مطابق، یہ دھماکے جن میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی، ایک ممکنہ عسکریت پسند حملے کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ دھماکوں کے بعد مغربی کنارے میں ’دہشت گردی مخالف‘ کارروائیاں تیز کی جائیں گی۔
پولیس کے ترجمان آسی اہارونی نے چینل 13 ٹی وی کو بتایا کہ دو دیگر بسوں میں بھی دھماکہ خیز مواد پایا گیا، مگر وہ پھٹ نہ سکا۔
پولیس کے مطابق، تمام پانچ بم ایک جیسے تھے اور ان میں ٹائمر نصب تھا۔ بم ڈسپوزل سکواڈ بقیہ ان بموں کو ناکارہ بنا رہا ہے جو نہیں پھٹے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کو اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا، جبکہ پورے اسرائیل میں تمام بسوں کو روک دیا گیا ہے۔
پولیس کے ترجمان حائیم سارگروف نے کہا: ’پولیس کی بڑی نفری جائے وقوعہ پر موجود ہے اور مشتبہ افراد کی تلاش جاری ہے۔ بم ڈسپوزل یونٹس مزید مشتبہ اشیا کی سکیننگ کر رہے ہیں۔ عوام سے گزارش ہے کہ ان علاقوں سے دور رہیں اور کسی بھی مشکوک چیز سے ہوشیار رہیں۔‘
سارگروف نے مزید کہا کہ دھماکوں میں استعمال شدہ مواد وہی تھا جو مغربی کنارے میں استعمال کیا جاتا رہا ہے، تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
بت یام کے میئر تزویقا بروٹ نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں جاری رکھیں، لیکن چوکنا بھی رہیں۔ انہوں نے چینل 13 ٹی وی کو بتایا کہ جمعے کو سکول اور پبلک ٹرانسپورٹ معمول کے مطابق ہوں گے۔
دریں اثنا، ایک گروہ، جو خود کو حماس کے عسکری ونگ ’القسام بریگیڈز‘ کی مغربی کنارے کے شمالی شہر طولکرم شاخ قرار دیتا ہے، نے میسجنگ ایپ ٹیلیگرام پر بیان جاری کیا: ’جب تک ہماری زمین پر قبضہ ہے، ہم اپنے شہداء کا بدلہ لینا نہیں بھولیں گے۔‘
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد، جس کے نتیجے میں غزہ میں تباہ کن تنازعہ چھڑ گیا تھا، اسرائیل نے مغربی کنارے میں عسکریت پسندوں کے خلاف مسلسل کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
ان کارروائیوں کے تحت اسرائیل نے مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے ملک میں داخلے پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
19 جنوری کو حماس کے ساتھ جنگ بندی کے بعد، اسرائیل نے مغربی کنارے میں ایک وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے۔
ماضی عسکریت پسند اسرائیل میں داخل ہو کر فائرنگ اور بم دھماکے کر چکے ہیں۔
یہ دھماکے ایسے وقت میں ہوئے جب حماس نے چار اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں حوالے کیں، جن میں ایک ماں اور اس کے دو چھوٹے بچے شامل تھے، جنہیں طویل عرصے سے مردہ تصور کیا جا رہا تھا۔
حماس نے کالے تابوت اسرائیل کے حوالے کیے، جن میں غالباً شری بیباس اور اس کے دو بچے، آریل اور کفیر، کے علاوہ 83 سالہ صحافی عودد لیفشٹز کی باقیات تھیں۔
ان کی برطانوی نژاد بیٹی ڈاکٹر شارون لیفشٹز کو 2023 کے حملے کے بعد سے ان کے والد کی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔
برطانوی وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر نے جمعرات کی شام مسٹر لیفشٹز کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں تمام باقی قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کو یقینی بنانا ہوگا۔ میری حکومت اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس مصیبت کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے قیام کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
© The Independent