خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کا ایک اور سال: احتجاج کے علاوہ کیا ہوا؟

تجزیہ کاروں کے مطابق آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کے بعد ایک سال میں پی ٹی آئی نے زیادہ تر ترجیح مظاہروں اور اپنے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کو دی جبکہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال پچھلے سالوں کے مقابلے میں خراب ہوئی۔

 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دوبارہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی جسے ایک سال گزر گیا ہے تاہم اس جماعت کے ناقدین اسے عرصے کو دھرنوں، مظاہروں، پکڑ دھکڑ اور اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے کے اعلانات سے لبریز دیکھتے ہیں لیکن کیا کوئی ترقیاتی کام بھی ہوا؟

عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف صوبہ خیبرپختونخوا میں 2013 سے اقتدار میں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس ایک سال میں پی ٹی آئی نے زیادہ ترجیح مظاہروں اور اپنے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کو دی جبکہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال پچھلے سالوں کے مقابلے میں خراب ہوئی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے گذشتہ ایک سال میں مختلف شعبوں اور حکومتی معاملات کے حوالے سے تجزیہ کاروں سے جاننے کی کوشش کی کہ اس جماعت کے اقتدار میں ایک اور سال میں کیا ہوتا رہا۔

ترقیاتی بجٹ کی صورت حال

پی ٹی آئی کی حکومت نے آٹھ فروری، 2024 کے عام انتخابات کے بعد جون تک بجٹ معاملات چلائے اور مالی سال 25-2024 کے لیے بجٹ پیش کر دیا۔

صوبائی حکومت نے صوبائی ترقیاتی بجٹ کے لیے مجموعی طور 297 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی، جن میں سے اب تک (آٹھ فروری 2025) تک 102 ارب روپے سے زائد جاری کیے جاچکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم محکمہ خزانہ کی دستاویزات کے مطابق جاری کیے گئے ترقیاتی بجٹ میں اب تک 75 ارب روپے تک خرچ کیے گئے ہیں، یعنی بجٹ کا تقریباً 50 فیصد تو ابھی جاری ہونا باقی ہیں جبکہ جاری شدہ بجٹ کو خرچ کرنے کی شرح بھی کم ہے۔

اسی طرح محکمہ خزانہ کے مطابق قبائلی اضلاع کی ترقی کے لیے 120 ارب روپے سے زائد کا بجٹ مختص کیا گیا لیکن اب تک صرف 19 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔ اس میں سے 14 ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے ہیں۔

قبائلی اضلاع کے ترقیاتی بجٹ میں دیگر صوبوں سے ملنے والی رقم میں محکمہ خزانہ کے مطابق ابھی تک کوئی بھی فنڈ نہیں ملا ہے۔

اسی طرح ترقیاتی مںصوبوں کی اگر بات کی جائے تو زیادہ تر ترقیاتی منصوبے پہلے سے جاری شدہ ہیں، جن پر کام شروع کیا گیا ہے۔

صوبائی قرضوں کا حجم

کسی بھی حکومت کے لیے بیرونی قرضہ لینا بھی بجٹ اور معاشی معاملات میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور پی ٹی آئی نے گذشتہ ایک سال میں سرکاری دستاویزات کے مطابق کوئی نیا قرضہ نہیں لیا ہے۔

جون 2024 تک صوبائی قرضے کا حجم 680 ارب روپے  سے زیادہ ہے اور محکمہ خزانہ کی دستاویزات کے مطابق مالی سال 2023 کے مقابلے میں 2024 میں قرضوں میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔

مقامی صحافی لحاظ علی نے بتایا کہ ’نیا قرضہ تو نہیں لیا گیا لیکن قرضوں میں اکثر معاہدے ہوتے ہیں اور اب اس پر صرف دستخط اور فنڈ ریلیز ہوجاتے ہیں۔‘

تاہم لحاظ علی سمجھتے ہیں کہ قرضہ لینا کسی حکومت کے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ بجٹ کا بہت کم فیصد ہوتا ہے لیکن انتظامی معاملات چلانا ایک اہم مسئلہ ہے۔

انہوں نے بتایا: ’پی ٹی آئی کی قیادت کو ایک سال بعد ہی پتہ چلا کہ قیادت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے اب وزیراعلیٰ سے صوبائی صدارت لے کر جنید اکبر کو دی گئی۔‘

صحت کارڈ کی بحالی

پی ٹی آئی کی حکومت آنے سے پہلے نگران حکومت میں مختلف مواقعوں پر صحت سہولت پروگرام کو فنڈ کی کمی کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا۔

تاہم گذشتہ سال پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد حکومت نے سب سے پہلا کام صحت سہولت پروگرام کی بحالی کا کیا، جس کے لیے رواں مالی سال میں 29 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

تاہم صحت کارڈ کی نئی پالیسی کے تحت بعض نجی ہسپتالوں کو پینل سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ بعض سرجریز اور علاج کو بھی صحت کارڈ سے نکالا گیا ہے۔

صحت کارڈ کے علاوہ صوبائی حکومت کی زیر نگرانی لنگر خانے بھی نگران حکومت میں بند کیے گئے تھے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد وہ لنگر خانے دوبارہ بحال کر دیے گئے۔

صحت عامہ میں کیا ہوتا رہا؟

صحت عامہ بھی حکومت کے لیے ایک اہم شعبہ سمجھا جاتا ہے اور موجودہ صوبائی حکومت کے آنے کے بعد سب سے پہلا کام پی ٹی آئی کا شروع کردہ صحت کارڈ کی بحال کا تھا۔

تاہم محکمہ صحت کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب لائف انشورنس کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔

اسی طرح نگران دور میں پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے معاملات اور خاص کر ہسپتالوں کو ایمرجنسی ادویات کی کمی کا سامنا تھا لیکن عہدیدار کے مطابق رواں سال اس مسئلے کو حل کر دیا گیا ہے۔

تاہ محکمہ صحت میں کچھ عہدیداروں کے مطابق اب بھی پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں سیاسی مداخلت ہو رہی ہے۔ قوانین تو بنائے گئے ہیں جیسے کہ آن لائن پوسٹنگ ٹرانسفر نظام لیکن اس پر عملی طور پر کام نہیں ہو رہا۔

اس کے علاوہ عہدیداروں کے مطابق صحت عامہ کے شعبے میں بنیادی اقدامات نہیں لیے گئے اور جتنے بھی اقدامات کیے گئے، وہ سطحی تبدیلیاں ہیں۔

امن و امان کی صورت حال

لحاظ علی پشاور میں مقیم صحافی و تجزیہ کار ہیں اور صوبائی حکومت کے انتظامی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ برس 21 نومبر کو ضلع کرم میں مسافر قافلے پر حملے کے نتیجے میں 42 افراد جان سے چلے گئے۔

اس واقعے کے ایک دن بعد 22 نومبر کو بگن بازار اور مکانات کو جلایا جاتا ہے اور اس سے اگلے دن پی ٹی آئی کے صوبائی وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں ایک قافلہ اسلام آباد مظاہرے کے لیے روانہ ہوتا ہے۔

لحاظ علی کے مطابق: ’اس ایک واقعے سے آپ پی ٹی آئی کی امن وامان کی صورت حال کو سنجیدگی سے لینے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں شام کے بعد تھانوں کو تالا لگا دیا جاتا ہے کیونکہ شدت پسندی کے خوف سے پولیس باہر نہیں نکلتی۔‘

تعلیمی معاملات کیسے رہے؟

خیبر پختونخوا میں جامعات خود مختار ادارے ہیں، تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے ان جامعات کو گرانٹ فراہم کی جاتی ہے لیکن گذشتہ ایک سال کے دوران یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار رہیں۔

بعض مواقع پر اساتذہ کی دو سے تین ماہ کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئیں جبکہ اب بھی صوبے کی تقریباً 24 جامعات میں وائس چانسلر کی تقرری نہیں کی گئی۔

وائس چانسلر کی تقرری بھی اسی وجہ سے سیاست کی نظر ہوئی کہ نگران دورِ حکومت میں وائس چانسلر کے تقرری کا سلسلہ شروع ہوا تھا لیکن پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد وہ سلسلہ روک دیا گیا۔

قانون سازی

کسی بھی حکومت کے لیے اہم اور بنیادی کام قانون سازی ہوتا ہے لیکن گذشتہ ایک سال کے دوران پی ٹی آئی نے زیادہ تر پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم کی ہیں۔

گذشتہ ایک سال میں مجموعی طور پر 27 قوانین پاس کیے گئے، جن میں سے 23 قوانین پرانے ہیں اور ان میں صرف ترامیم کی گئی ہیں۔

ان میں اہم ترمیم یونیورسٹیز ایکٹ میں کیا گیا ہے جس میں پی ٹی آئی ہی کے سابق دور کے قانون میں ترمیم کر کے چانسلر(گورنر) سے کچھ اختیارات لے کر وزیر اعلیٰ کو منتقل کیے گئے۔

اسی طرح پولیس ایکٹ میں بھی ترمیم کر کے ضلعی پولیس افسران سمیت پولیس کے بعض اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کو وزیر اعلیٰ کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت نے ماحولیات کے حوالے سے ایک نیا قانون پاس کیا ہے، جس میں اینٹ کی بھٹیوں کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کے بارے میں پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے گذشتہ ہفتے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ترقیاتی منصوبے پنجاب سے زیادہ ہو رہے ہیں لیکن اس کی تشہیر نہیں ہو رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور اسی وجہ سے ہم مسلسل مظاہرے اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست