امریکہ: جلا وطن ایرانیوں کا شاہ ایران کے ’چیف ٹارچرر‘ کے خلاف مقدمہ

متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ سالوں تک جاری رہنے والے ناقابلِ تصور تشدد کے اثرات آج بھی محسوس کرتے ہیں۔

شاہ ایران کے ماتحت ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار کے خلاف تین امریکی باشندوں نے جسمانی اور نفسیاتی تشدد پر مقدمہ دائر کیا ہے (فائل فوٹو/ کریٹیو کامنز)

امریکہ میں مقیم تین سابق سیاسی قیدیوں نے شاہ ایران کے دور کے ’چیف ٹارچرر‘ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ جو بعد میں فلوریڈا منتقل ہو گئے تھے اور وہاں جائیدادوں کے کاروبار سے وابستہ ہو گئے تھے۔

متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ سالوں تک جاری رہنے والے ناقابلِ تصور تشدد کے اثرات آج بھی محسوس کرتے ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ کو موصول ہونے والی 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے ہرجانے کی قانونی شکایت کے مطابق، پرویز ثابتہ کو ایران میں تشدد کے ادارہ جاتی نظام کو قائم کرنے والے معماروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے عوامی سطح پر ’زبردستی اعترافات لینے کا طریقہ متعارف کروایا، جو ان کے دور میں فروغ پایا اور بعد میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اسے تیزی سے اپنا کر وسیع پیمانے پر نافذ کیا۔‘

یہ مقدمہ 10 فروری کو اورلینڈو کی وفاقی عدالت میں دائر کیا گیا، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ثابتہ، جو شاہ کے دورِ حکومت میں ’سب سے بااثر اور خوف زدہ‘ کرنے والے افراد میں شامل تھے، آج بھی ایرانی حکومت کے بدنام زمانہ ’اسلامی انقلابی گارڈز( آئی آر جی سی)‘ سے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

یہ وہی عسکری تنظیم ہے جو آیت اللہ روح اللہ خمینی نے 1979 میں اقتدار میں واپسی کے بعد قائم کی تھی۔

ثابتہ کو ایران کی خفیہ پولیس ’ساواک‘ کا دوسرا اعلیٰ افسر قرار دیا گیا تھا، جو اسلامی انقلاب سے پہلے شاہی حکومت کے تحت کام کرتی تھی۔ اسلامی انقلاب کے نتیجے میں موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھال کر ایک آمرانہ نظام قائم کر لیا۔

کیس سے وابستہ ایک باخبر ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ کئی لوگ شاہ کے دور کو آیت اللہ خمینی اور اسلامی جمہوریہ کے دور سے مختلف سمجھتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ ’ایک ہی سکے کے دو رخ‘ ہیں۔

ذرائع کے مطابق، ’اسلامی جمہوریہ ایران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شاہی حکومت سے کہیں زیادہ سنگین جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ تشدد کی روایت شاہ کے دور میں قائم کی گئی، اور اسلامی جمہوریہ نے اسے مزید بڑھایا۔‘

ذرائع نے مزید کہا: ’ساواک کو کبھی ختم نہیں کیا گیا، بلکہ اسلامی جمہوریہ نے اسے اپنے نظام کا حصہ بنا لیا۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس مقدمے کے متاثرین کو نہ شاہ کے دور میں انصاف ملا اور نہ ہی آج کے مذہبی حکمرانوں نے انہیں جوابدہی کا موقع دیا۔

ذرائع کے مطابق، بہت سے ایرانیوں کا ماننا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سچائی کو بے نقاب کیا جائے۔ انہوں نے مقدمہ دائر کرنے والے متاثرین کو ’حقیقی انصاف اور جوابدہی کے وسیع تر مطالبے کا حصہ‘ قرار دیا۔

ثابتہ، جنہیں ابھی تک قانونی نوٹس موصول نہیں ہوا، نے پیر کو تبصرہ کرنے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا، نہ ہی ای میل، ٹیکسٹ یا وائس میل پیغامات کا کوئی جواب دیا۔

ثابتہ پر الزامات عائد کرنے والے مدعیان، عدالت میں جن کی شناخت ’جان ڈو اول، دوم اور سوم‘ کے نام سے ظاہر کی گئی، دعویٰ کرتے ہیں کہ 88 سالہ ثابتہ نے ان کی گرفتاریوں اور اس کے بعد ہونے والے تشدد کی ’منصوبہ بندی، نگرانی اور حمایت‘ کی۔

ان متاثرین کو بجلی کے جھٹکے دیے گئے، ان کی کلائیوں کو چھت سے باندھ کر لٹکایا گیا، ان کے جنسی اعضا پر وزنی اشیا باندھی گئیں، انہیں کوڑوں اور چابک سے مارا گیا، بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور ’اپالو‘ نامی ایک خوفناک مشین پر بٹھایا گیا۔

’اپالو‘ ایک الیکٹرک چیئر تھی، جس میں ایک دھات کا ماسک لگا ہوتا تھا تاکہ متاثرہ شخص کی چیخیں کئی گنا شدت کے ساتھ اس کے اپنے ہی کانوں میں سنائی دیں۔‘

جان ڈو اول، جو 72 سالہ کیلیفورنیا کے رہائشی ہیں، نے اپنی شکایت کے ساتھ جمع کروائے گئے حلف نامے میں لکھا: ’میں گذشتہ چار دہائیوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خوف میں زندگی گزار رہا ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ایرانی ایجنٹوں کی جانب سے مسلسل نگرانی کا سامنا ہے، چاہے وہ آن لائن ہو یا حقیقی زندگی میں۔ ایرانی حکومت کے حامیوں نے ان کے بچے کو سڑک پر ہراساں کیا، اور ایرانی حکام نے ان کے اہل خانہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کی موجودہ رہائش سے متعلق معلومات فراہم کریں۔

ایک علیحدہ حلف نامے میں، جان ڈو دوم، جو 85 سال کے ہیں اور کیلیفورنیا میں مقیم ہیں، نے کہا کہ وہ ’اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی دنیا بھر میں حکومت مخالفین کو خاموش کرانے کی صلاحیت سے خوفزدہ ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ثابتہ ’مجھے اور میرے خاندان کو اس مقدمے میں میری شمولیت کی وجہ سے نقصان پہنچانے کی خواہش اور صلاحیت رکھتا ہے۔‘

جان ڈو سوم، جو 68 سالہ کیلیفورنیا کے رہائشی ہیں، نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ وہ ’اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ امریکہ میں رہائش اختیار کرنے سے میں ایرانی حکومت کے ایجنٹوں کے ہاتھوں کسی نقصان سے محفوظ ہوں۔‘

مقدمے میں ثابتہ کو ایک خوفناک شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو شاہ رضا پہلوی کے دور میں ساواک کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

ثابتہ اور اس کے ساتھی ’ہزاروں افراد کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ان پر بہیمانہ تشدد کے ذمہ دار تھے، جن میں وکلا، مصنفین، تھیٹر ڈائریکٹرز، یونیورسٹی کے اساتذہ، نسلی اقلیتوں کے افراد، دانشور، طلبہ، کارکنان، فنکار اور سیاسی مخالفین‘ شامل تھے۔

ریاستی دہشت گردی کا یہ منظم نظام [ثابتہ] کے ساواک کے تیسرے شعبے کے سربراہ بننے کے دوران اپنے عروج پر پہنچ گیا، جس میں ساواک کے اس شعبے کو ’سب سے بدنام زمانہ یونٹ‘ قرار دیا گیا۔

مقدمے کے مطابق، ثابتہ اور ان کی اہلیہ 1978 میں ایران سے فرار ہو گئے اور اپنی رہائش چھپانے کے لیے ’فعال اقدامات‘ کیے۔

انہوں نے گذشتہ چار دہائیاں روپوشی میں گزاریں اور بالآخر 2023 میں خود کو دوبارہ منظر عام پر لائے، جب ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہے تھے۔ مقدمے کے مطابق، انہوں نے ایک 7.5 گھنٹے طویل دستاویزی فلم تیار کی، جس میں اپنے دورِ اقتدار کا دفاع کیا اور خود کو شاہِ ایران کے سب سے سفاک ساتھیوں میں سے ایک ثابت کرنے کی کوشش کی۔

وہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے مختلف ناموں سے جانے جاتے رہے، جن میں ’پیٹر ثابتہ‘ بھی شامل تھا، تاکہ اپنی پروفائل کو کم نمایاں رکھا جا سکے۔

اسی سال، ثابتہ نے لاس اینجلس میں ایرانی حکومت کے خلاف ہونے والے ایک احتجاج میں شرکت کر کے ایرانی جلاوطن کمیونٹی میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا۔

ان کی بیٹی، جو ہارورڈ یونیورسٹی میں حیاتیات (بائیالوجی) کی پروفیسر ہیں اور زگیٹ ریسٹورنٹ سروے کے بانی خاندان میں شادی کر چکی ہیں، نے سوشل میڈیا پر اپنے والد کے ساتھ احتجاج میں شرکت کی ایک تصویر پوسٹ کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقدمے کے مطابق، جان ڈو اول 1974 میں تبریز یونیورسٹی کے طالبعلم تھے جب ساواک نے انہیں ان کے ہاسٹل کے کمرے سے گرفتار کیا۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق، انہیں کئی ہفتوں تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو ممنوعہ سیاسی شاعری کی کتاب فراہم کی تھی۔

مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ان پر ہونے والا وحشیانہ تشدد ’مکمل طور پر منظم اور ثابتہ کی منظوری سے کیا گیا تھا۔‘

40 دن کی وحشیانہ تفتیش کے بعد، جان ڈو اول کو فوجی عدالت میں قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے الزام میں پیش کیا گیا، جہاں انہیں چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔

مقدمے میں مزید کہا گیا ہے: ’قید کے دوران لگنے والے زخموں اور انفیکشنز کے نتیجے میں انہیں زندگی بھر گردوں کے مسائل کا سامنا رہا۔ جان ڈو اول کے جسم پر آج بھی کوڑے اور چابک کے نشان باقی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی بھر ان نشانات اور اس ظلم کی تفصیلات کو دوسروں سے چھپائے رکھا۔‘

مقدمے کے مطابق، جان ڈو دوم، جو ایک فنکار تھے، 1970 کی دہائی میں ایک آرٹسٹ گروپ کے رکن تھے، جسے ساواک نے زبردستی بند کر دیا۔ انہیں ایران میں آزادی اظہار کی حمایت سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر کئی بار گرفتار اور قید کیا گیا۔ فوجی عدالت میں ایک علامتی مقدمے (شو ٹرائل) کے بعد، انہیں 12 سال قید کی سزا سنائی گئی، جس میں سے انہوں نے سات سال جیل میں گزارے۔ قید کے دوران، ثابتہ کے احکامات پر انہیں ’بار بار‘ شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

قانونی شکایت میں درج ہے کہ ’جان ڈو دوم پر ہونے والا تشدد ان پر گہرا نفسیاتی بوجھ چھوڑ گیا ہے، اور ان کی زندگی کا ہر دن ایک نئی جدوجہد جیسا ہوتا ہے۔ اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے اثرات سے نمٹنے کے لیے، جان ڈو دوم نے کئی سالوں تک تھراپی کروائی۔ حتیٰ کہ اس بارے میں سوچنا بھی ان کے لیے ایک شدید اذیت ناک اور تکلیف دہ عمل ہے۔

’کئی مواقع پر، جب وہ اپنے تشدد کے تجربات پر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انہیں شدید نفسیاتی جھٹکوں کا سامنا ہوتا ہے، جس میں پورے جسم کا لرزنا اور چکر آنا شامل ہے۔‘

مقدمے کے مطابق، جان ڈو سوم اُس وقت ہائی سکول کے طالبعلم تھے جب ساواک نے انہیں شاہ مخالف لٹریچر تقسیم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا اور ان کے آبائی شہر شیراز میں واقع ایک حراستی مرکز میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

شکایت میں کہا گیا ہے کہ ایک ہم جماعت، جسے پرندوں کا شکار کرنے کے لیے بنائی گئی ایک دیسی بندوق کے ساتھ پکڑا گیا تھا، نے جان ڈو سوم کا نام بتا دیا۔ اس کے بعد، جان ڈو سوم پر ایک مسلح گروہ میں شامل ہونے کا الزام عائد کیا گیا اور انہیں دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔

مقدمے کے مطابق، قید کے دوران انہیں بےحد خوفناک تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جو مبینہ طور پر ثابتہ کے حکم اور نگرانی میں کیا گیا۔ اس تشدد کے اثرات آج بھی ان کی زندگی پر گہرے نقش چھوڑ چکے ہیں۔

شکایت میں مزید کہا گیا: ’جان ڈو سوم کے لیے اپنے اوپر گزرے ہوئے مظالم کو یاد کرنا اور ان کے بارے میں بات کرنا انتہائی مشکل ہے؛ یہ عمل ان کے لیے باعثِ بےعزتی اور شرمندگی محسوس ہوتا ہے۔ یہ صدمہ ان کے لیے زندگی بھر ایک بھاری بوجھ بنا رہا، اگرچہ انہوں نے اس سے نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔‘

مقدمے میں کہا گیا: اب جب کہ ثابتہ نے خود کو منظرِ عام پر لے آئے ہیں، جان ڈو اول، دوم اور سوم اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں۔

اگرچہ انہیں ایرانی حکومت کے اہلکاروں اور شاہ کے حامیوں کی جانب سے انتقامی کارروائی کا خدشہ ہے، لیکن مقدمے کے مطابق، یہ متاثرین ’محسوس کرتے ہیں کہ وہ مزید انتظار نہیں کر سکتے‘، چاہے یہ خطرات کبھی ختم ہوں یا نہ ہوں۔

یہ تینوں متاثرین فی کس کم از کم سات کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہرجانے اور تادیبی جرمانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو مجموعی طور پر 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر بنتا ہے، اس کے علاوہ وکیلوں کی فیس بھی شامل ہے۔ جب ثابتہ کو باضابطہ طور پر مقدمے کا نوٹس دیا جائے گا، تو اس کے پاس الزامات کا جواب دینے کے لیے تین ہفتے ہوں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا