کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اور ویٹیکن سٹی کے حکمران پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں چل بسے۔
13 مارچ 2013 کو جب وہ 266ویں پوپ منتخب ہوئے تو انہیں ایک ایسا چرچ وراثت میں ملا جو بچوں کے جنسی استحصال کے سکینڈل کی وجہ سے حملے کی زد میں تھا اور ویٹیکن کی بیوروکریسی میں اندرونی لڑائیوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔
پوپ کو انہی مسائل سے نمٹنے کے لیے اور کلیسا میں نظم و ضبط بحال کرنے کے واضح مینڈیٹ کے ساتھ منتخب کیا گیا۔ لیکن جیسے جیسے ان کی پاپائیت آگے بڑھی، انہیں قدامت پسندوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے ان پر روایات کو پامال کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے ترقی پسندوں کی ناراضگی بھی مول لی، جنہوں نے محسوس کیا کہ انہیں دو ہزار سال پرانے چرچ کی تشکیل نو کے لیے بہت کچھ کرنا چاہیے تھا۔
لیکن اس سے قطع نظر، فرانسس ایک عالمی سپر سٹار بن گئے اور اپنے متعدد غیر ملکی دوروں پر بڑی تعداد میں انہوں نے مسلسل بین المذاہب مکالمے اور امن کو فروغ دیا، اور پسماندہ افراد، جیسے کہ مہاجرین، کا ساتھ دیا۔
پاپائے اعظم فرانسس کی زندگی سادگی، خدمت، اور سماجی انصاف کے گرد گھومتی تھی۔ وہ ایک عملی، ہمدرد، اور غریب پرور رہنما تھے جو چرچ کو خودغرضی سے پاک رکھنے اور مسیحی تعلیمات کو عام کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ ان کی قیادت میں کیتھولک چرچ نے کئی اصلاحات دیکھیں اور وہ دنیا بھر میں رواداری، امن اور مساوات کے سفیر بنے۔
ابتدائی زندگی
ویٹیکن سٹی کی ویب سائٹ کے مطابق پوپ فرانسس، جن کا اصل نام خورخے ماریو برگولیو (Jorge Mario Bergoglio) ہے، 17 دسمبر 1936 کو ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوئے۔ ان کے اطالوی نژاد والد ماریو برگولیو ریلوے اکاؤنٹنٹ تھے جبکہ ان کی والدہ رجینا سیووری ایک گھریلو خاتون تھیں۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سے ایک تھے۔
2013 میں رومن کیتھولک چرچ کے سربراہ بنے والے پوپ فرانسس اس سے پہلے ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس کے آرچ بشپ تھے اور اس دوران وہ اپنی سادگی، عوامی زندگی اور خدمت کے جذبے کے لیے پورے براعظم میں مشہور تھے۔ اپنے 15 سالہ اسقفی عہد (1998-2013) کے دوران انہوں نے زیر زمین ریل اور بسوں میں سفر کیا تاکہ عام لوگوں کے قریب رہ سکیں اور ان کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
وہ عالیشان رہائش گاہوں کے بجائے ایک عام اپارٹمنٹ میں رہتے تھے اور خود اپنا کھانا بنایا کرتے تھے۔ ان کی یہ عاجزی اور سادگی بعد میں بھی برقرار رہی جب وہ پوپ منتخب ہوئے اور انہوں نے ویٹیکن کے روایتی شاہانہ طرزِ زندگی کو اختیار کرنے کے بجائے سادہ طرزِ زندگی برقرار رکھا۔
عاجزی سے عظمت تک کا سفر
11 مارچ 1958 کی ایک صبح خورخے ماریو برگولیو نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے ان کی پوری زندگی کا رخ بدل دیا۔ اس دن وہ جیسوئٹ سوسائٹی کے نوآموز (Novitiate) بن گئے۔ جیسوئٹ کیتھولک فرقے کے اندر ایک تنظیم ہے جو خدمتِ خلق کے ذریعے دنیا بھر میں مذہب کی تبلیغ پر یقین رکھتی ہے۔
ان کی شخصیت میں سادگی اور خدمت کا جذبہ ابتدا ہی سے نمایاں تھا۔ وقت کے ساتھ ان کا تعلیمی سفر بھی جاری رہا۔ 1963 میں وہ چلی گئے جہاں انہوں نے انسانی علوم کی تعلیم مکمل کی۔ جب وہ واپس ارجنٹینا لوٹے تو انہوں نے کولیجیو ڈی سان خوسے سے فلسفے کی ڈگری حاصل کی۔ علم کے اس سفر نے ان کے خیالات کو مزید نکھارا اور انہیں ایک دانشور اور رہنما بننے کی بنیاد فراہم کی۔
تدریس اور مطالعہ
1964 سے 1966 تک خورخے ماریو برگولیو سانتا فے اور بیونس آئرس میں ادب اور نفسیات کے استاد رہے۔ تعلیم و تدریس ان کے لیے صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مشن تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ علم کی روشنی سے ہی حقیقی خدمت کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ لیکن ان کا سفر یہیں نہیں رُکا۔
1967 میں، وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے واپس کولیجیو ڈی سان خوسے پہنچے اور 1970 میں وہاں سے تھیولوجی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی علمی و روحانی استعداد اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔
مذہبی خدمات
13 دسمبر 1969 کو آرچ بشپ رامون جوسے کاسٹیانو نے برگولیو کو پادری مقرر کیا۔ اس دن انہوں نے یہ عہد کیا کہ وہ اپنی زندگی محتاجوں، بے سہارا افراد اور عام لوگوں کی خدمت میں وقف کر دیں گے۔
ان کے علم، حکمت اور قیادت کی صلاحیتوں کو جلد ہی پہچان لیا گیا۔ 1973 میں انہیں جیسوئٹس کے ارجنٹینا میں صوبائی سربراہ کے طور پر منتخب کیا گیا جہاں وہ اگلے چھ سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے فیصلے اور قیادت نے انہیں ایک مضبوط اور عملی رہنما کے طور پر متعارف کرایا۔
چرچ میں اعلیٰ ترین مقام
1992 میں پوپ جان پال دوم نے برگولیو کو بیونس آئرس کا معاون بشپ مقرر کیا۔ چرچ کے انتظامی معاملات میں ان کی گہری بصیرت اور خدمت کا عزم انہیں تیزی سے آگے لے جا رہا تھا۔
تین جون 1997 کو، انہیں بیونس آئرس کا کوآجوٹر آرچ بشپ بنایا گیا یعنی وہ اس مقام کے اصل آرچ بشپ کے متوقع جانشین بن گئے۔ جلد ہی وہ دن بھی آیا جب انہیں چرچ کی مکمل قیادت سنبھالنی تھی۔
28 فروری 1998 کو، آرچ بشپ کواراسینو کے انتقال کے بعد برگولیو بیونس آئرس کے آرچ بشپ، ارجنٹینا کے پرائمیٹ اور ایسٹرن رائٹ کے ماننے والوں کے روحانی رہنما بن گئے۔ ان کا منصب اب پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور بااثر ہو چکا تھا۔
21 فروری 2001 کو پوپ جان پال دوم نے انہیں کارڈینل کے درجے پر فائز کیا۔ یہ ان کے لیے نہ صرف ایک اعزاز تھا بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی۔
یہی وہ سفر تھا جو انہیں بعد میں پوری دنیا کے پہلے جیسوئٹ پوپ کے منصب تک لے گیا۔ ان کی کہانی عاجزی، سادگی، اور غیر متزلزل عزم کی ایک روشن مثال ہے۔
پوپ بننے کا سفر
2005 خورخے ماریو برگولیو پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کے انتخاب کے لیے ہونے والی کارڈینلز کی خفیہ مجلس کونکلیو میں شریک ہوئے۔ اس وقت وہ ایک نمایاں امیدوار تو تھے لیکن اکثریت نے بینیڈکٹ شانزدہم کو منتخب کیا۔
فروری 2013 کو پوپ بینیڈکٹ شانزدہم نے صحت کی وجوہات کی بنا پر پوپ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا جو کہ جدید دور میں ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس کے بعد ویٹیکن میں ایک نیا کونکلیو بلایا گیا جہاں دنیا بھر سے جمع ہونے والے کارڈینلز نے نیا پوپ منتخب کرنا تھا۔
13 مارچ 2013 کو کئی مرحلوں کی ووٹنگ کے بعد برگولیو کو سپریم پونٹیف منتخب کیا گیا۔ وہ پہلے لاطینی امریکی، پہلے جیسوئٹ اور پہلے غیر یورپی پاپائے اعظم بنے۔ انہوں نے اپنا نام پوپ فرانسس رکھا جو کہ سینٹ فرانسس آف اسیسی سے متاثر تھا جو سادگی اور غریبوں کی خدمت کے لیے مشہور تھے۔
پوپ بننے کے بعد انہوں نے ویٹیکن کی روایتی شاہانہ رہائش گاہ کے بجائے ایک سادہ اپارٹمنٹ میں رہنے کو ترجیح دی اور چرچ کو مزید عوامی اور سماجی خدمت کی طرف مائل کرنے پر زور دیا۔
بین المذاہب ہم آہنگی کے کے علمبردار
پوپ فرانسس بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ اپنی پوری زندگی مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے، رواداری اور امن کے قیام پر زور دیتے رہے۔ ان کے دورِ پوپائی میں کئی اہم اقدامات کیے گئے جو بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
2019 میں انہوں نے الازہر کے شیخ احمد الطیب کے ساتھ ’انسانی بھائی چارے کے اعلامیے‘ پر دستخط کیے، جو اسلام اور مسیحیت کے درمیان امن و تعاون کو فروغ دیتا ہے۔
2021 میں وہ عراق گئے اور وہاں انہوں نے آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کی جو اہل تشیع کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ یہودی ہندوؤں، بدھ مت کے پیروکاروں، اور دیگر مذاہب کے نمائندوں سے بھی مسلسل مکالمہ کرتے ہیں اور عالمی امن کے لیے تعاون پر زور دیتے ہیں۔
پوپ فرانسس نے سویڈن میں قرآن کی بےحرمتی کے واقعات کی بھی بھر پور مذمت کی تھی اور اسے ’آزادی اظہار رائے‘ کے نام پر نفرت انگیز عمل قرار دیا تھا۔
متحدہ عرب امارات کے اخبار الاتحاد میں شائع ہونے والے انٹرویو میں پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ ’کوئی بھی کتاب جسے مقدس سمجھا جائے اس کا احترام ان لوگوں کے لیے کیا جانا چاہیے جو اس پر یقین رکھتے ہیں۔‘
پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ ’مجھے ان (قرآن مجید کو نذر آتش کرنے) کی حرکتوں پر غصہ آیا اور نفرت محسوس ہوئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آزادی اظہار کو کبھی دوسروں کو حقیر سمجھنے کے ذریعے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے اور ایسا کرنے کی اجازت دینا قابل مذمت ہے جسے مسترد کیا جاتا ہے۔‘
پوپ فرانسس کی زندگی کے چند دلچسپ پہلو:
خود نوشت کی اشاعت
پوپ فرانسس نے اپنی سوانح عمری ’ہوپ‘ (امید) کے عنوان سے شائع کی جو کسی موجودہ پوپ کی پہلی خود نوشت ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی، ارجنٹینا میں پرورش، اور اپنے مذہبی سفر پر روشنی ڈالی۔
قتل کی کوشش
پوپ فرانسس کی خود نوشت میں خود ان کی زندگی کے کئی دلچسپ پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے 2021 کے دورہ عراق کے دوران پیش آنے والے ایک اہم واقعے کا ذکر کیا۔ پوپ فرانسس کے مطابق اس دورے کے دوران انہیں خودکش حملے کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی جسے برطانوی انٹیلیجنس اور عراقی پولیس نے ناکام بنایا۔
اس واقعے کی تفصیلات میں انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون خودکش بمبار اور ایک تیز رفتار وین کے ذریعے ان پر حملے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ یہ حملے اس وقت ناکام بنائے گئے جب عراقی پولیس نے حملہ آوروں کو روک کر انہیں ہلاک کر دیا۔
آئس کریم سے محبت
پوپ فرانسس کو آئس کریم بہت پسند تھی خاص طور پر لیموں اور آم کے ذائقے والی آئس کریم۔ ویٹیکن سٹی میں ان کی رہائش گاہ کے قریب آئس کریم پارلر کے مالک کے مطابق انہوں نے پوپ کو چار کلو گرام آئس کریم بھیجی تھی جو ان کی اس ڈیزرٹ سے رغب کا ثبوت ہے۔
بطور باؤنسر ملازمت
پوپ بننے سے قبل خوخے ماریو برگولیو (آنجہانی پوپ فرانسس) نے بیونس آئرس کے نائٹ کلب میں باؤنسر کے طور پر کام کیا۔ اس تجربے نے انہیں لوگوں سے نمٹنے کی مہارتیں سکھائیں جو بعد میں ان کے مذہبی سفر میں مددگار ثابت ہوئیں۔
فٹ بال کے شیدائی
پوپ فرانسس فٹ بال کے بڑے مداح ہیں اور ارجنٹائن کے کلب سان لورینزو کے حامی رہے ہیں۔ انہوں نے اس کلب سے لگاؤ کا کئی بار عوامی طور پر ذکر کیا تھا۔