برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے 100 سے زیادہ ملازمین نے ادارے پر اسرائیل کے حق میں جانبدارانہ رپورٹنگ کا الزام لگاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کے حوالے سے رپورٹنگ میں ’دیانت داری، درستی اور غیر جانبداری کے اصولوں کی پھر سے پاسداری‘ کرے۔
بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی کو بھیجے گئے خط پر میڈیا انڈسٹری کے 230 سے زیادہ افراد نے دستخط کیے ہیں جن میں بی بی سی کے 101 ملازمین بھی شامل ہیں، جن کی شناخت واضح نہیں۔ خط میں بی بی سی پر تنقید کی گئی کہ وہ غزہ کی رپورٹنگ میں اپنے ادارتی معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہا اور ’مسلسل منصفانہ اور حقائق پر مبنی صحافت‘ نہیں کی گئی۔
یہ خط جسے دی انڈپینڈنٹ نے خصوصی طور پر دیکھا اور جس پر سعیدہ وارثی اور اداکارہ جولیئٹ سٹیون سن نے بھی دستخط کیے، میں بی بی سی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ’بغیر کسی خوف یا جانبداری کے‘ رپورٹنگ کرے اور ’اعلیٰ ادارتی معیارات پر پھر سے پورا اترتے ہوئے منصفانہ، درست اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کو یقینی بنائے۔‘
خط میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ نشریاتی ادارہ کچھ ادارتی اقدامات کرے یعنی ’یہ بات دہرائی جائے کہ اسرائیل بیرونی صحافیوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔ جب اسرائیلی دعوؤں کی تصدیق کے لیے ثبوت ناکافی ہوں تو یہ بات واضح کی جائے۔ خبروں کی سرخیوں میں اس بات کو واضح کیا جائے کہ اسرائیل ہی حملہ آور ہے۔ اکتوبر 2023 سے پہلے کا باقاعدہ تاریخی پس منظر فراہم کیا جائے اور ہر انٹرویو میں اسرائیلی حکومت اور فوجی نمائندوں کو بھرپور انداز میں چیلنج کیا جائے۔‘
بی بی سی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اصرار کیا کہ ’ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سب سے زیادہ قابلِ اعتماد اور غیر جانبدار خبریں فراہم کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی بی سی کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ’جب ہم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے یا ہم اپنی رپورٹنگ کے انداز میں کوئی تبدیلی لاتے ہیں تو ہم شفاف انداز اپناتے ہیں۔ ہم اپنے ناظرین کے ساتھ ان مجبوریوں کے حوالے سے بھی بہت واضح ہیں، جو ہماری رپورٹنگ پر اثرانداز ہوتی ہیں جن میں غزہ میں داخلے کے کم مواقع، لبنان کے کچھ حصوں تک رسائی میں مشکلات اور ان علاقوں میں رپورٹر بھیجنے کی ہماری مسلسل کوششیں شامل ہیں۔‘
خط پر دستخط کرنے والوں کی فہرست میں مؤرخ ولیم ڈیلرمپل، ڈاکٹر کیتھرین ہیپر، جو یونیورسٹی آف گلاسگو میں عمرانیات کی سینیئر لیکچرار اور میڈیا ڈائریکٹر ہیں، رضوانہ حمید، جو سینٹر فار میڈیا مانیٹرنگ کی ڈائریکٹر ہیں اور براڈکاسٹر جان نکلسن بھی شامل ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ بی بی سی کو غزہ جنگ کے دوران جانبداری کے الزام کا سامنا کرنا پڑا۔ ستمبر میں بی بی سی نے اس دعوے کو مسترد کیا تھا کہ اس نے اپنے ہی اصولوں کی 1500 سے زیادہ مرتبہ خلاف ورزی کی، جس کے بعد ایک متنازع رپورٹ سامنے آئی جس میں الزام عائد کیا گیا کہ بی بی سی کے کچھ رپورٹرز نے حماس کی سرگرمیوں کو نظرانداز کیا یا کم اہمیت دی۔ اس وقت بی بی سی کے ترجمان نے کہا تھا کہ ادارہ اس تحقیق پر ’سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گا۔‘ لیکن بی بی سی جانبداری کے الزامات کی تردید کی۔
خط پر دستخط کرنے والوں کا اصرار ہے کہ ادارے کی جانبداری اسرائیل کے حق میں ہے۔ بی بی سی کے ایک عہدیدار جنہوں نے خط پر دستخط کیے، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کے کچھ ساتھی کارپوریشن چھوڑ چکے ہیں کیونکہ انہیں ادارے کی رپورٹنگ پر اعتماد نہیں رہا۔
انہوں نے کہا: ’میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی عملے کے اعتماد کی ایسی کم سطح نہیں دیکھی۔ میرے کچھ ساتھی حالیہ مہینوں میں بی بی سی چھوڑ چکے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ہماری اسرائیل اور فلسطین پر رپورٹنگ میں دیانت داری سے کام نہیں لیا جا رہا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ خوف کی شدت کی وجہ سے خود کو مفلوج محسوس کر رہے ہیں۔‘
بی بی سی کے ایک اور ملازم نے کہا کہ ملازمین ’اُس ادارے پر سے اعتماد کھو رہے ہیں جس کے لیے وہ کام کرتے ہیں۔‘ کیونکہ انہوں نے بی بی سی کے اسرائیل کے بارے میں نقطہ نظر میں ’بڑا امتیاز‘ دیکھا۔ انہوں نے مزید کہا: ’میں واقعی بی بی سی کے مستقبل کی پروا کرتا ہوں اور ہر روز میں دیکھتا ہوں کہ ہم دنیا بھر کے ناظرین کا اعتماد کھو رہے ہیں۔
’لوگ حقیقت جاننے کے لیے دوسری جگہوں پر جا رہے ہیں کیونکہ ہم انہیں یہ حقیقت فراہم نہیں کر رہے۔‘
بی بی سی کے عملے کی جانب سے دی گئی مثالوں میں ’انسانیت سوز اور گمراہ کن سرخیاں‘ شامل ہیں۔ مثلاً ان میں سے ایک سرخی اس خبر کی تھی جس کے مطابق جنوری 2024 میں غزہ میں اسرائیلی فوجیوں نے چھ سالہ بچی کو گولی مار کر اس کی جان لی۔
خط پر دستخط کرنے والے ایک شخص نے اس سرخی ’چھ سالہ ہند رجب غزہ میں مدد کی درخواست کے چند دن بعد مردہ پائی گئیں،‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ خدا کا کام نہیں تھا۔ مارنے والے اسرائیل کا نام سرخی میں ہونا چاہیے تھا اور یہ واضح ہونا چاہیے تھا کہ اسے قتل کیا گیا۔‘
ایک اور ساتھی نے کہا: ’فلسطینیوں کو ہمیشہ نا قابل اعتماد ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ہم واقعات کے بارے میں اسرائیل کے مؤقف کو ترجیح دیتے ہیں حالاں کہ اسرائیلی فوج کا جھوٹ بولنے کا ریکارڈ اچھی طرح سے دستاویزی شکل میں موجود ہے۔
’ہم اکثر اسرائیل کو سرخی سے باہر رکھنے کو ترجیح دیتے دکھائی ہیں، اگر ممکن ہو تو، یا اس بات کو مشکوک بناتے ہیں کہ فضائی حملوں کا ذمہ دار کون ہو سکتا ہے۔ غزہ سے متعلق کسی بھی چیز کے لیے متوقع تصدیق کا معیار دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔‘
عملے کی جانب سے اٹھائے گئے دیگر خدشات میں کوریج کی کمی شامل ہے، جیسے کہ 11 جنوری کو عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے نسل کشی کے مقدمے کو براہ راست نہ دکھانا جبکہ اگلے دن اسرائیل کی دفاعی کوریج کو براہ راست نشر کیا گیا۔
خط پر دستخط کرنے والے 237 افراد میں سے 72 نے کھلے عام دستخط کیے جن میں سابق برطانوی وزیر خارجہ اور براڈکاسٹر بیرونیس وارسی اور فلم ایما کی اداکارہ جولیئٹ سٹیون سن سمیت درجنوں دانشور شامل ہیں۔
اس خط میں جہاں بی بی سی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، وہیں دیگر میڈیا اداروں، مثال کے طور پر آئی ٹی وی اور سکائی نیوز میں بھی خامیوں کو اجاگر کیا گیا۔
بی بی سی نے جواب دیتے ہوئے کہا: ’یہ تنازع ان تنازعات میں ایک ہے جس کے بارے میں ایسی خبریں دی گئیں، جو سب سے زیادہ تقسیم کا سبب بنیں اور ہم جانتے ہیں کہ لوگ اس بارے میں بہت واضح خیالات رکھتے ہیں کہ اسے کیسے رپورٹ کیا جا رہا ہے، نہ صرف بی بی سی پر بلکہ تمام میڈیا میں۔
’بی بی سی خود کو بہت اعلیٰ معیار پر رکھتا ہے اور ہم اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ قابل اعتماد اور غیر جانبدار خبریں دیں۔ ہم اپنے الفاظ کو تولتے ہیں، حقائق کی تصدیق کرتے ہیں اور وسیع پیمانے پر انٹرویوز اور ماہرین کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ’بی بی سی کسی ایک عالمی نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے۔‘ نشریاتی ادارے کے ترجمان نے اصرار کیا کہ اسے اسرائیل کے حق میں تعصب کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف تعصب کی تقریباً برابر شکایات موصول ہوتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے فرض کر رکھا ہے کہ ہم درست کر رہے ہیں اور ہم تمام تر تنقید کو سننے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ بی بی سی کے اندر اور باہر اور اس پر غور کرتے ہیں کہ ہم کیا بہتری لا سکتے ہیں۔‘
© The Independent