مس اور مسز

’بھابھی بریانی‘ کھانے والے نام نہاد دیور، نہ جون کا مہینہ دیکھتے تھے نہ یہ کہ آٹھویں مہینے میں بریانی کی تہیں دم دینے والی بھابھی اور ان کا بچہ دونوں اسے کتنی بد دعائیں دیتے ہیں۔

انڈین فلم ’مسز‘ کا پوسٹر (باویجا سٹوڈیو)

کل ہی ایک سٹریمنگ سائیٹ پہ فلم ’مسز‘ دیکھی اور ہاسا ہی نکل گیا۔ ایک بار دیکھ کے دوبارہ دیکھی اور دوسری بار بھی کچھ ویسی ہی کیفیت طاری رہی۔

فلم میں کوئی نئی بات نہیں تھی، ایک کہانی جو روز نظر آتی ہے۔ بار بار دہرائی جاتی ہے اور اس میں کوئی نیا پن نہیں مگر یہ سادگی ہی دہرائی گئی، یہ ہی تسلسل اس کی خوبصورتی بن گئی۔

بنیادی طور پہ یہ فلم ایک مڈل کلاس دلہن کی زندگی کے پہلے چار مہینے تھے۔ جن کے آخر میں اس نے پھر سے مس بننے کو ترجیح دی اور اس گھر میں ایک اور مسز اسی گرہستی کی چکی چلانے کے لیے آ گئی۔

سلسلہ یہ ہی ہے، پاکستان ہو یا انڈیا، ہر مڈل کلاس گھرانے میں زندگی کے یہ ہی ڈھنگ ہیں۔ ایک لڑکی جو اپنے گھر میں اسی طرح رہتی ہے جیسے کوئی بھی نارمل انسان رہتا ہے، اس کے خواب ہوتے ہیں، امنگیں، خواہشیں،  ترجیحات، پسند نا پسند، بھوک، نیند ،چاہت، دکھ سکھ، خوشی غمی، اسی طرح جیسے کسی بھی انسان کے جذبے ہوتے ہیں۔

پھر ایک دن اس لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر لڑکا، جم جانے کا شوقین، محنتی، ماں باپ کا تابعدار جو نہ پان کھاتا ہے نہ سگریٹ پیتا ہے نہ کسی اور لت میں مبتلا ہے۔ گھر کے پکے سادہ کھانے کا یہ شوقین پڑھا لکھا مرد کیسے ایک لڑکی کو گھر سے بھاگنے پہ مجبور کرتا ہے بس اتنی سی کہانی ہے۔

ہماری نسل کی لڑکیوں کا المیہ یہ تھا کہ سب کی سب تعلیم یافتہ تھیں، 20 یا 22 برس میں شادیاں ہوئی تھیں تو ذرا ہوش ٹھکانے پہ ہوتے تھے۔ کچھ بننے اور اپنی شناخت ڈھونڈنے کی خواہش بھی ہوتی تھی۔

ان سب خواہشات کے ساتھ گھر میں موجود بزرگ بھی اس دور کے تھے جنہیں سل بٹے پہ پسی چٹنی، بغیر پریشر ککر کے گلائے گئے پائے، نہاری، پرت دار پراٹھے، نکھرے نکھرے چاولوں کا پلاؤ، داغ کی ہوئی کھیر، ہر موسم کے اچار اور ہاتھ پہ دھلے ململ کے کرتے چاہیے ہوتے تھے۔ بلکہ کچھ گھرانوں میں تو ابھی بھی کرتے کی کلف زدہ آستینیں چننا اور ازار بند ڈال کے نیفہ چننے کی ذمہ داری بھی گھر کی خواتین پہ ہوتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گھر کے مرد گھر سے جانے سے پہلے صرف یہ سوچتے تھے کہ گھر پہ موجود خواتین سے دوپہر کا کھانا پکوانے کے لیے کون سی سبزی یا کس جانور کا گوشت خریدا یا خریدوایا جائے، رات کے کھانے میں کیا پکے گا اور کس دوست کو کون سا کھانا کھلانا ہے۔

’بھابھی بریانی‘ کھانے والے بے شرم نام نہاد دیور، نہ جون کا مہینہ دیکھتے تھے نہ یہ کہ آٹھویں مہینے میں بریانی کی تہیں دم دینے والی بھابھی اور ان کا بچہ دونوں اسے کتنی بد دعائیں دیتے ہیں۔

ان مردوں کا کام خاتون خانہ کو باورچی خانے میں کھانا پکانے سے وہ ٹارچر دینا ہوتا تھا جو اگر نازیوں کو پتا چل جاتا تو گیس چیمبرز بنا کر بدنام نہ ہوتے۔

ہاں ان کو اگر، خراب ڈرین درست کرانے، ایگزاسٹ فین بدلوانے،  آنکھ مارتی ٹیوب لائٹ ٹھیک کرانے یا کچن کی ٹپ ٹپ بہتی ٹونٹی ٹھیک کرانے کا کہہ دیا جاتا تھا تو یہ کام غیر معینہ مدت کے لیے التوا میں ڈال دیے جاتے تھے اور خاتون خانہ ٹپکتے نل پہ شاپر باندھ کے، ٹوٹے پلگ میں ماچس کی تیلیاں دے کے اور اوون کے ٹوٹے ناب کو پلاس سے گھما کے چولہا جلانے کے بعد بھی یہ ہی امید رکھتی تھیں کہ صاحب بہادر مصروف ہیں اور جس دن ان کی مصروفیت ختم ہو گی اس دن یہ کام بھی ہو جائیں گے۔

خیر سے وہ دن کبھی نہ چڑھا۔

ہماری نسل نے اس سارے کھیل کبڈی سے نمٹنے کے ساتھ بہت حد تک اپنی تعلیم اور کیرئیر کو بھی وقت دیا۔ اس وقت کتنے ہی اداروں کی سربراہ یا ذمہ دار عہدوں پہ خواتین ہی ہیں۔

ان خواتین کے گھروں میں بھی بے حد سلیقہ پایا جاتا ہے۔ بچے بھی اچھے نمبر لیتے ہیں، شوہر بھی کوشش کے باوجود کوئی برائی نہیں چن سکتے کیونکہ پہننے اوڑھنے اور خود کو بنا سنوار کے رکھنے میں بھی ہماری نسل کسی سے پیچھے نہیں۔ ساس سسر اور نندیں بھی دل پہ پتھر رکھ کے ہی بہو کی صلاحیتوں کی تعریف کر ہی دیتے ہیں۔

چند ایک کو چھوڑ کے یہ ہماری نسل تھی۔ جسے جنریشن ایکس بھی کہا جاتا ہے۔ خط سے لے کر گوگل میٹ اور زوم کال تک ہم نے’مس سے مسز‘ کا سفر کیا۔

ہم میں سے کچھ نانیاں دادیاں بھی بن چکی ہیں مگر دیکھنے میں اکثر اب بھی کالج کی وہ لڑکیاں لگتی ہیں جو آنکھوں میں خواب اور ہاتھ میں ڈگری لیے آخری بار کانوکیشن ہال سے نکلی تھیں تو سوچا نہ تھا کہ خواب اور تعبیر کے درمیان کتنے سل بٹے، چٹنیاں، گول روٹیاں اور چوکور پراٹھے حائل ہیں۔

ہم یہ آگ کا دریا عبور کر آئے مگر ’مسز‘ کی کہانی آج کی لڑکی کی کہانی ہے۔ یہ ہماری نسل کی وہ لڑکی نہیں جس کے گھر آئے بابری بھیا جو جانے شوہر نامدار کی کس بجیا کے کس رشتے کے دیور تھے،  شکنجی کو نیمبو پانی کہہ کے ٹہلتے نکل جائیں۔

جی نہیں، ہر گاہ خاص و عام ہم نے اپنی بیٹیوں کی تربیت ایسی کی ہے کہ وہ دوسری بار دخل در معقولات پہ نیمبو پانی کا گلاس منہ پہ مار کے واپس اپنی دنیا کو پلٹ جائیں گی۔

جہاں وہ  کسی کی مسز نہیں ہوں گی بلکہ اپنے نام کے ساتھ جئیں گی۔ اگر آپ کو ہماری کسی بیٹی کو مسز بنا کر رکھنا ہے تو خود بھی مسٹر بننے کی تمیز سیکھیے ورنہ ایسا ہے کہ خود اپنے لیے گول روٹی پکائیے جو کہ کچھ ایسا ہی ہے ’جیسا اس جگہ کھجایا جائے جہاں کھجلی نہ ہو رہی ہو۔‘

پس نوشت: آخری جملہ بزرگ مزاح نگار سے معذرت کے بغیر جن کا قول تھا کہ اپنی بیوی سے محبت جتانا ایسا ہی ہے جیسے ایسی جگہ کھجایا جائے جہاں کھجلی نہ ہو رہی ہو۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر