ہم میں سے کوئی بھی وہ منحوس صبح کبھی نہیں بھولے گا جب تین برس پہلے ولادی میر پوتن نے یوکرین پر مکمل چڑھائی کا آغاز کیا۔ جب یوکرینی شہروں پر میزائل برسنے کی ویڈیو دکھائی تو تو لمحہ بھر کے لیے ایسا لگا کہ شاید پوتن نے صرف یوکرین پر ہی نہیں، بلکہ ان جمہوری اقدار پر بھی کاری ضرب لگائی ہے جن کے ہم اپنے یوکرینی دوستوں کے ساتھ مشترکہ طور پر امین ہیں۔
ایسا لگ رہا تھا کہ مغرب کمزور اور منقسم ہے۔ کچھ ہی مہینے پہلے افغانستان سے تباہ کن انخلا کے باعث یورپ ابھی تک صدمے میں تھا اور یورپ کی بات کریں تو وہ اب بھی سستی روسی گیس کا عادی تھا۔ شاید ہی وہ متحد ہوکر یوکرینی عوام کو وہ مدد فراہم کر پاتا جس کی انہیں اشد ضرورت تھی۔
لیکن پوتن نے ہمارے ان مشترکہ نظریات کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا جن کے ہم یوکرین سمیت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشترکہ طور پر امین ہیں۔ وہ بنیادی قدریں جو جمہوریت، سچائی اور آزادی پر مشتمل ہیں۔ ہم متحد ہوئے اور بہادر یوکرینی عوام کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ نہ صرف پوتن کی پیش قدمی کو پیچھے دھکیل سکیں بلکہ اپنے چند علاقے بھی واپس حاصل کر سکیں۔
لہٰذا مجھے سخت افسوس ہے کہ آنے والے حالات کے بارے میں موجود خوف کی یہ کیفیت مجھے فروری 2022 کے اُن دنوں کی یاد دلاتی ہے۔ مگر اس مرتبہ معاملہ عجیب طور پر الٹ چکا ہے۔ اوول آفس میں بیٹھی شخصیت جنہیں آزاد دنیا کا رہنما ہونا چاہیے، امریکہ کے اتحادیوں کا ساتھ دینے کے بجائے ظالم آمر پوتن کی حمایت میں زیادہ خوش نظر آتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم حقیقت کی دنیا سے نکل کر کسی غیر حقیقی دنیا میں آ گئے ہیں۔
چند ہی روز قبل ہم نے دیکھا کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس یورپ کو آزادی اظہار اور جمہوریت پر لیکچر دے رہے تھے، جب کہ وہ خود پوتن کا قرب حاصل کر رہے تھے۔ وینس نے اپنی پوری زندگی ان ہی اقدار کو پامال کرنے میں گزار دی۔ ادھر ٹرمپ کے چہیتے ایلون مسک افسوسناک حد تک یہ الزام لگا رہے ہیں کہ زیلنسکی ’فوجیوں کی لاشوں پر پل رہے ہیں۔
اور خود امریکی افواج کے سپریم کمانڈر ڈونلڈ ٹرمپ ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ان کی رہائش مار اے لاگو کے بجائے ماسکو سے آئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ زیلنسکی کو ’آمر‘ کہنا، یہ دعویٰ کرنا کہ جنگ کا آغاز یوکرین نے کیا، یہ صرف ٹرمپ کی روایتی غلط بیانیوں سے کہیں آگے کی بات ہے۔ ایسے تاریک لمحات میں ہمیں برطانیہ کے عظیم صحافتی اداروں کا بے حد شکرگزار ہونا چاہیے۔
بلاشبہ پورے برطانیہ میں لوگ ان تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کر حیران اور شدید پریشان ہوئے ہوں گے۔ 2022 میں برطانیہ بھر کے خاندانوں نے یوکرینی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ ہم جانتے ہیں کہ جمہوریت اور آزادی کے لیے یوکرین کی یہ جنگ دراصل ہماری اپنی جنگ بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی صحافیوں نے پوتن کی ناجائز دولت کے ذرائع بے نقاب کرنے میں آگے بڑھ کر تحقیقی کردار ادا کیا جس کی بدولت ہمارے لیے ان خامیوں کو دور کرنا آسان ہوا جن کے ذریعے وہ اپنے وسائل محاذ جنگ تک پہنچا رہے ہیں۔
لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ برطانیہ اس عظیم دھوکے کے خلاف واضح لکیر کھینچ دے جو یوکرین، برطانیہ اور ہمارے یورپی اتحادیوں کو دیا جا رہا ہے۔
اس مقصد کے لیے ہمیں داخلی سطح پر متحد ہونا ہوگا جہاں پوری برطانوی سیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ٹرمپ کے جھوٹ کے خلاف ایک آواز ہوکر کھڑی ہو اور دفاعی اخراجات میں اضافے پر متفق ہو جس میں مجموعی قومی پیدوار کا تین فیصد تک دفاع پر خرچ کرنے کی تجویز بھی شامل ہو۔
اور اس کا مطلب بیرون ملک بھی قیادت کرنا ہے، یورپ میں جہاں ہمیں فوری طور پر ایک سربراہی کانفرنس بلانی چاہیے تاکہ روس کے وہ اربوں پاؤنڈ کے منجمد اثاثے ضبط کیے جائیں جو ہمارے قابو میں ہیں اور پھر انہیں یوکرین کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے۔ اور بحر اوقیانوس کے اس پار بھی۔
برطانوی وزیراعظم کیر سٹارمر اس ہفتے امریکی صدر سے ملاقات کے لیے واشنگٹن جائیں گے۔ جب وہ یہ کریں تو انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ٹرمپ دھونس جمانے والے ایسے شخص ہیں جو دوسروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہے۔
یہ بات خود ٹرمپ بھی تسلیم کر چکے ہیں۔ یہی ان کی کتاب ’دی آرٹ آف دی ڈیل‘ کا بنیادی فلسفہ ہے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ ہم ٹرمپ سے ان ہی کی زبان میں بات کریں۔ خاموش بیٹھ کر یہ امید لگانے سے کہ شاید وہ ہمیں نشانہ نہ بنائیں، ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
سٹارمر کو چاہیے کہ وہ ٹرمپ کے سچائی، جمہوریت اور آزادی پر حملے کے خلاف اور دوسری عالمی جنگ کے بعد ہمارے براعظم میں قائم کیے گئے سلامتی کے نظام کو تباہ کرنے کی ان کی کوششوں کے سامنے برطانیہ کی طرف سے بھرپور انداز میں کھڑے ہوں۔ میں اس معاملے پر دی انڈپینڈنٹ کے مؤقف کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔
سر ایڈ ڈیوی ایم پی لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما ہیں۔
© The Independent