جمہوری دنیا نے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کے بارے میں جو بیانیہ کافی عرصے سے قائم کرکے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ یہ لوگ مسلم ممالک سے مغرب میں پناہ لینے کے لیے گھس رہے ہیں، اس بیانیے کی عمارت حال ہی میں امریکی صدر نے دھڑام سے ایسے گرا دی کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اپنی سبکی چھپا نہیں سکے۔
صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سرحدوں کو بند کرکے لاکھوں تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے ہنگامی انتظامات کیے، جس میں برازیل اور انڈیا کے غیر قانونی تارکین وطن کے لیے خصوصی فوجی پروازوں کا اہتمام کیا گیا۔
برازیل نے امریکی طیارے کو اپنے ملک میں لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ صدر نے اپنا طیارہ بھیج کر اپنے شہریوں کو واپس لانے کا انتظام کیا، مگر انڈین تارکین وطن جس طرح زنجیروں میں بند کر کے ایئر فورس کے طیاروں میں بھیجے جا رہے ہیں، اس سے پوری قوم پر ایک سکتہ سا طاری ہوا اور وزیراعظم نریندر مودی کے شدید ردعمل کا انتظار کرنے لگے۔
اب تک نہ شدید ردعمل ظاہر ہوا اور نہ ہی اب تک تارکین وطن کی واپسی کی پروازیں رکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ عرصہ پہلے پیو ریسرچ سینٹر کی ایک سروے رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی لمبی فہرست شامل تھی۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی امریکی ملکوں کے بعد چین، انڈیا اور افریقی ملکوں کے تارکین وطن کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ مسلم ملکوں کی پناہ لینے کی درخواستیں کم ہو گئی ہیں۔
انڈیا میں جہاں معاشی اور سیاسی حالات کو جنوبی ایشیا کے ملکوں کے مقابلے میں بہتر اور شاندار سمجھا جاتا رہا ہے، شاید ہی کسی کو گمان تھا کہ سات لاکھ سے زائد انڈین امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہو چکے ہیں یا داخل ہونا چاہتے ہیں۔
بیشتر لوگ پنجاب، گجرات اور ہریانہ سے ہیں، جو بہتر زندگی کی تلاش میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر امریکی سرحد پار کرنا چاہتے ہیں یا امیر ملک میں داخل ہو چکے ہیں۔
چونکہ صدر ٹرمپ اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے بیچ گہری دوستی کے باعث یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ ٹرمپ دوستی کو ملحوظ خاطر رکھ کر انڈین تارکین وطن کو واپس انڈیا بھیجنے سے پہلے کئی بار ضرور سوچیں گے اور پھر چند ہفتے پہلے واشنگٹن میں مودی ٹرمپ سربراہ اجلاس کے بعد یہ امید گہری ہو گئی تھی کہ مودی تارکین وطن کے بارے میں کم از کم ٹرمپ کو راضی کریں گے۔
ہوا یہ کہ جب ایک جہاز میں مودی انڈیا واپس آ رہے تھے تو دوسری جانب امریکی فوجی طیارے میں ایک سو سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کو زنجیروں میں باندھ کر پنجاب پہنچایا جا رہا تھا۔
یہ کاروائی نہ صرف تارکین وطن کے ساتھ بڑی زیادتی تھی بلکہ مودی حکومت کی تضحیک بھی سمجھی جا رہی ہے، جس نے اس طرزِ عمل کی مذمت کرنےکے بجائے دوسرے بہانے تراشے۔
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکرنے پارلیمان میں بیان دیا کہ امریکہ 2013 سے انڈین تارکین وطن کو واپس بھیجتا رہا ہے اور غیر قانونی طور پر کسی ملک میں داخل ہونے پر ایسا رویہ متوقع ہے اور اسی طرح انسانی جانوں کے کاروبار اور سمگلنگ پر بھی حکومت کی سخت کارروائی متوقع ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے بھی لگ بھگ یہی بیان دے کر اپنے آپ کو مسئلے سے مبّرا کر دیا، مگر کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد نے پارلیمان کے سامنے خود کو زنجیروں میں ڈال کر شدید مظاہرہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے لیے اپنے طیارے بھیجے اور امریکی انتظامیہ سے غیر انسانی سلوک کرنے سے روکے۔
کانگریس کی رہنما رینوکو چوہدری نے کہا کہ تارکین وطن کو 24 گھنٹوں پر محیط سفر کے دوران بیت الخلا جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، جو نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ انسانی حقوق کے عالی قوانین کی شدید پامالی بھی۔
اراکین پارلیمنٹ نے پارلیمان میں ہنگامہ کرکے برازیل کی مثال پیش کر دی، جب وہ اپنے شہریوں کے لیے طیارہ بھیج سکتا ہے تو انڈیا نے دنیا بھر میں اپنی تضحیک کرنے کے بجائے ایسا کیوں نہیں کیا۔
ٹرمپ نے انڈیا کے علاوہ گوئٹے مالا اور ایکواڈور کے تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے لیے فوجی طیارے استعمال کیے اور یہ ثابت ہو گیا کہ ان کے ملک میں غیر قانونی تارکین وطن جمہوری اور غیر مسلم ملکوں سے زیادہ آتے ہیں جبکہ غریب اور مسلم مملکتوں کے بارے میں ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی میڈیا کے مطابق اس وقت 32 لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن ملک میں موجود ہیں، جن میں سے سات لاکھ سے زائد انڈیا سے ہیں اور جن میں سے 18 ہزار کی نشاندہی کی گئی ہے۔
2023 سے امریکی سرحد عبور کرنے والے انڈین تارکین وطن کی تعداد بڑھ گئی ہے اور سرحد کے قریب کئی بار ان کی تکرار دیکھی گئی، جسے امریکی میڈیا نے کافی اجاگر کیا۔
میڈیا چینل اے بی سی کو احوال بتاتے ہوئے پنجاب کے غیر قانونی تارکین وطن ہرجیت سنگھ نے کہا کہ وہ بہتر زندگی کا خواب لے کر امریکہ میں داخل ہونا چاہتے تھے، مگر وہ خواب امریکہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی چکناچور ہو گیا، جب انہیں جہاز میں بٹھا کر انڈیا واپس لایا گیا۔
ہرجیت سنگھ کے مطابق: ’چار براعظموں سے گزر کر میں میکسیکو کی سرحد پر پہنچ گیا، دہلی سے ایمسٹرڈیم، جوہانسبرگ، گیانا، برازیل، بولیویا، پیرو اور کولمبیا سے ہوتے ہوئے میں منزل کے قریب تھا کہ مجھے پکڑ کر بند کر دیا گیا۔ پھر 18 روز کے بعد زنجیروں میں جکڑ کر پنجاب پہنچا دیا گیا، جیسے میں انسان نہیں جانور تھا۔ یقین کرنا مشکل تھا کہ امریکہ جیسا ملک ایسا سلوک کرسکتا ہے۔‘
جب سے وزیراعظم نریندر مودی واشنگٹن سے واپس آئے ہیں، تب سے تارکین وطن کی واپسی، تجارتی ٹیکسوں میں برابری کے ٹرمپ کے مطالبے، ایف 35 کی خریداری اور امریکی دوستی پر خاموشی چھائی ہے اور بقول ایک تجزیہ نگار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس موضوع کو چھیڑنا نہیں چاہتی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اندرونی طور پر ٹرمپ اور مودی کی دوستی میں دراڑ پیدا ہوئی ہے، حالانکہ بیشتر انڈین میڈیا ان خبروں سے آج کل گریز کرنے لگا ہے۔
البتہ جب ٹرمپ نے انڈیا میں حالیہ پارلیمانی انتخابات پر اثر ڈالنے کے لیے دو کروڑ سے زائد امریکی امداد کی ادائیگی کی بات کی تو بی جے پی نے پہلے اس کو کانگریس کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی مگر ٹرمپ نے کئی بار مودی کا نام لے کر بی جے پی کے لیے مزید مسائل پیدا کر دیے، جو تارکین وطن کے ساتھ سلوک کے مسئلے کو دبانے میں کسی حد تک کامیاب تو ہوئی تھی، لیکن امداد کی ادائیگی گلے کی ہڈی ثابت ہو رہی ہے اور اس کی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔