حکومت نے پاکستان میں کرپٹو کونسل کے قیام پر کام شروع کر دیا ہے اور اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر مشاورت شروع کر دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے اس حوالے سے فریم ورک بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو لیگل قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کے معاشی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کرنا اور ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے میں فرق ہے۔ پاکستان کا مسئلہ قوانین کا نہ ہونا نہیں بلکہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا اصل مسئلہ ہے۔ وزیرخزانہ نے ڈیجیٹل اثاثوں کے بارے میں ایک غیر ملکی وفد سے بھی ملاقات کی ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ڈیجیٹل اثاثوں کے مشیران بھی شامل تھے۔ وزیراعظم نے بھی چند روز قبل ڈیجیٹل کرنسیوں پر بات کی تھی اور بتایا تھا کہ ریگولیشن پر کام ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کا ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے دلچسپی امریکی دباؤ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں نئی کرپٹو پالیسی کے اثرات پاکستان پر بھی دکھائی دے رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’حکومت کی جانب سے ابھی تک کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے مشاورت نہیں کی گئی لیکن میں کرپٹو کونسل کے قیام کی مشاورت میں ذاتی حیثیت میں شامل ہوں۔ پاکستان کو جدید دنیا کے ساتھ چلنا چاہیے اور میں خود بھی ڈیجیٹل کرنسی کا حامی ہوں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں نے مشورہ دیا ہے کہ کونسل بنانے کی بجائے یہ کام سٹیٹ بینک آف پاکستان کو دیا جانا چاہیے۔ کونسل بنانے سے کام کی رفتار سست ہو جائے گی۔ کرپٹو کے لیے علیحدہ ایکسچینجز بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میں کرنسی ایکسچیبجز کا نیٹ ورک موجود ہے۔ ان کے پاس بین الاقوامی کرنسی میں ٹریڈ کرنے کا لائسنس بھی موجود ہے اور تجربہ کار ٹیم بھی ہے۔ اس لیے کرپٹو کی لانچنگ بھی اسی پلیٹ فارم سے کی جانا چاہیے۔ ریگو لیشن بنانے کے لیے اینٹی منی لانڈرنگ اور کے وائے سی کے مقامی اور بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔‘
ان کے مطابق ’سوئٹزرلینڈ، سنگاپور اور پرتگال جیسے ممالک نے کرپٹو کے حوالےسے سخت قانون سازی کر رکھی ہے۔ پاکستان ان ممالک سے رہنمائی بھی لے سکتا ہے۔ کرپٹو کی مائننگ کی بھی اجازت دی جانا چاہیے لیکن مائننگ کے لیے لائسنس جاری کیے جانے چاہیے۔ سکیورٹی لی جانا چاہیے جیسے بینکوں اور کرنسی ایکسچینجز سے بھاری سکیورٹی لی جاتی ہے۔ ایک کنٹرولڈ ماحول کے اندر اس کی لانچنگ سے منی لانڈرنگ میں کمی آسکتی ہے اور ملک کے ڈالرز ذخائر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں تقریبا 9.4 ٹریلین مالیت کی کرنسی کیش کی شکل میں گردش کر رہی ہے۔ پاکستانی معیشت کے لیے یہ بہت بڑی رقم ہے۔ عوامی سطح پر بینکنگ ٹرانزیکشن سے بچا جاتا ہے۔ اتنی بڑی رقم کو سسٹم میں لانے کے لیے کرپٹو ریگولیشن اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘
عارف حبیب لمیٹد کی ہیڈ آف ریسرچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلاشبہ اگلا دور کرپٹو کرنسی کا ہے۔ لیکن یہ ایک پراثر اور پیچیدہ شعبہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا سنٹرل بینک کے پاس اتنی قابلیت اور وسائل ہیں کہ وہ اس کو ریگولیٹ کر سکے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لانچنگ کا اعلان کر دیا جائے اور اس کے بعد حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔ پاکستان کے ڈالر ذخائر صرف 11 ارب ڈالرز ہیں۔ درآمدات بھی محدود پیمانے پر کی جا رہی ہیں۔ درآمدات سے پہلے سٹیٹ بینک کی منظوری لینا پڑتی ہے ایسے میں اگر کروڑوں ڈالرز بینکوں کے ذریعے کرپٹو کی ادائیگی کرنا پڑ گئی تو اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’اس وقت پاکستان میں کم و بیش دو کروڑ سے زیادہ صارفین کرپٹو مارکیٹ میں سرگرم ہیں۔ اور اربوں روپوں کے ڈیجیٹل اثاثوں کے مالک ہیں۔ پاکستان میں چونکہ یہ غیر قانونی ہے اس لیے یہ صارفین دبئی اور دیگر ممالک میں بینک اکاؤنٹس کھلوا کر ٹرانریکشنز کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ٹرانزیکشن کی سہولت دی جاتی ہے لیکن غیر قانونی ہونے کی وجہ سے بینک اکاؤنٹس بند کر دیے جاتے ہیں۔ ٹیکس ریٹنز میں بھی ان اثاثوں کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اسے قانونی شکل دے کر حکومت ٹیکس اہداف حاصل کر سکتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مالٹا، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور اور پرتگال میں کرپٹو کرنسیز کے لیے سازگار قوانین موجود ہیں جب کہ فرانس، جرمنی، جاپان، کینیڈا اور برطانیہ جیسے کچھ ممالک میں کرپٹو کرنسیز کے استعمال کی اجازت ہے لیکن اس کے استعمال پر سخت قواعد و ضوابط اور ٹیکس لاگو ہیں۔ پاکستان میں بھی سخت قوانین بنا کر اس سسٹم کو لاگو کیا جا سکتا ہے۔‘
طلعت محمود کرپٹو کرنسی کا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے دبئی میں 10 لاکھ روپے ادا کر کے ملازمت کا سرٹیفیکیٹ لیا ہوا ہے اور اسی سرٹیفیکٹ پر انھوں نے دبئی میں بینک اکاونٹ کھول رکھا ہے۔ جس میں وہ پاکستان میں بیٹھ کر کرپٹو کی ٹرانزیکشن کرتے ہیں اور جتنی رقم پاکستان لانا ہو تو ایکسچینج کمپنی کو دو فیصد اضافی دے کر وہ رقم پاکستان کے بینک اکاونٹ میں بطور ترسیلات زر منگوا لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت سپورٹ کرے تو جو ڈالرز دبئی میں رکھنے پر مجبور ہیں وہ پاکستان میں رکھے جا سکتے ہیں۔‘
سابق گورنر سٹیٹ بینک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سٹیٹ بینک کرپٹو کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ 75 سالوں میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ابھی تک مؤثر نظام نہیں بنایا جا سکا۔ کرپٹو کے پیچیدہ نظام پر چیک اینڈ بیلنس کیسے رکھا جا سکتا ہے؟ چین اگر لانچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کے پیچھے ضرور کوئی اثاثے رکھے جائیں گے۔ پاکستان کے پاس کون سے اثاثے ہیں؟ چین میں 78 فیصد سے زیادہ ٹرانزیکشنز ڈیجیٹل ہوتی ہیں ایسی اکانومی میں کرپٹو کو ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے پاکستان میں مشکل ہے۔‘