جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے غیر معمولی اجلاس کی سائیڈ لائنز پر پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ کی بنگلہ دیش کے مشیر خارجہ محمد توحید حسین سے ملاقات میں پاکستان کی طرف سے تجارت اور دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان رابطوں کو بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔
دفتر خارجہ کے مطابق دو طرفہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جس میں دونوں اطراف کے برادرانہ جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔
’دونوں وزرا نے بڑھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار اور باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔‘
پانچ ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ دونوں رہنماؤں کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل یہ ملاقات گذشتہ برس اکتوبر میں کامن ویلتھ سربراہان حکومت کے اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں حکومت تبدیلی کو دو ماہ ہوئے تھے۔
اسلام آباد میں پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بھی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بتایا کہ ’بنگلہ دیش ہمارے لیے ایک اہم ملک ہے، وزیر خارجہ کی دورہ بنگہ دیش کے لیے دونوں فریقین رابطے میں ہے۔‘
بنگلہ دیش میں پاکستان حمایتی حکومت
سابق سفارت کار عاقل ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان کے لیے اس لحاظ سے حالات بہتر ہیں کہ پہلے مخالف حکومت تھی اور اب پاکستان کی حمایت یافتہ حکومت ہے، جو اسلام آباد کے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہتی ہے۔
’لیکن یہاں یہ اہم ہے کہ بنگلہ دیش کا ہمسایہ ملک انڈیا ہے پاکستان نہیں اور اگر انڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو یہ ان کے لیے آسان نہیں ہو گا۔‘
عاقل ندیم کا کہنا تھا کہ ’لیکن اگر اس گیم میں پاکستان کے ساتھ چین بھی شامل ہوتا ہے اور بیجنگ ڈھاکہ کے ساتھ تعلق بڑھاتا ہے تو پھر اس کو خطے کے لیے گیم چینجر کہہ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں بنگلہ دیش کے ساتھ بڑھتے تعلق پر ابھی سے بہت خوش فہم نہیں ہونا چاہیے کیونکہ حالات کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں اور یہ بھی اندازا نہیں کہ عوامی لیگ کی کتنی قوت ابھی باقی ہے۔
’وہاں الیکشن ہوں گے تو پھر علم ہو گا کہ عوام میں عوامی لیگ کی تاحال حمایت موجود ہے یا نہیں۔ وہ بنگلہ دیش کی پرانی جماعت ہے اور بنگلہ دیش کے نظام میں ان کے بہت سے لوگ ابھی بھی موجود ہوں گے۔‘
دونوں ملکوں کے دفاعی رابطے
رواں برس جنوری میں کئی دہائیوں بعد بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے اعلی افسر کا پاکستان دورہ کرنا اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات دفاعی ماہرین کے نزدیک ایک غیر معمولی دفاعی ڈپلومیسی ہے۔ جو گذشتہ برس اگست میں ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ایک نیا دفاعی سفارتی رابطہ ہے۔
بنگلہ دیش کی مسلح افواج ڈویژن کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم کمر الحسن نے اپنے وفد کے ہمراہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری بیان کے مطابق ’ملاقات کے دوران، دونوں سربراہان نے خطے میں ابھرتی ہوئی سلامتی کی حرکیات پر وسیع تبادلہ خیال کیا اور دوطرفہ فوجی تعاون کو بڑھانے کے لیے غور کیا۔ آرمی چیف نے اور بنگلہ دیش آرمی کے پرنسپل سٹاف افسر نے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دفاعی تعلقات کی اہمیت سمجھتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان پائیدار شراکت داری کو بیرونی اثرات کے خلاف مضبوط رہنا ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان بنگلہ دیش تعلقات میں بہتری
دونوں ملکوں کے مابین اگست کے بعد سے رابطے بڑھنا شروع ہوئے۔
گذشتہ برس نومبر میں بنگلہ دیش پاکستان کا تجارتی ربط کئی دہائیوں بعد بحال ہوا، جب کراچی سے روانہ ہونے والا پاکستان کا مال بردار جہاز 15 نومبر کو بنگلہ دیش کی چٹا گانگ بندرگاہ پہنچا، جہاں بنگلہ دیش میں تعینات پاکستان ہائی کمیشن کے حکام نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’یہ نئی راہداری سپلائی چین کے لیے موثر ثابت ہو گی۔ اس سے وقت بچے گا اور دونوں ملکوں کے لیے نئے کاروباری مواقع پیدا ہوں گے۔‘
یہ جہاز 10 دن میں بنگلہ دیش پہنچا تھا، جب کہ اس سے قبل محدود تجارت براستہ سری لنکا یا دبئی ہو رہی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان 2018 سے فضائی رابطے بھی منقطع ہیں۔
دوسری جانب 12 برسوں بعد پاکستان کے 35 رکنی تجارتی وفد نے جنوری میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔
بنگلہ دیش کے نئے ہائی کمشنر اقبال حسین خان بھی گذشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد پہنچے تھے، جبکہ پاکستان کے ہائی کمشنر سید احمد معروف ڈھاکہ میں اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار قمر چیمہ کہتے ہیں کہ ’دفاعی ملاقات تعلق قریب آنے کا ایک سگنل ہے۔ فوجی قیادت کی ملاقات سے یہ تاثر بن گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات نارمل ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد اگر بنگلہ دیش کے آرمی چیف بھی پاکستان آتے ہیں اور یہاں سے سیکرٹری خارجہ اور وزیر خارجہ کی سطح کے دو طرفہ مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو پاکستان کو اس کا کھویا ہوا دوست واپس مل جائے گا۔ پاکستان کی تجارت خطے میں بڑھے گی۔‘
سابق سفیر عبدالباسط نے کہا کہ ’اگر تعلقات باہمی دلچسبی اور باہمی احترام کی بنیاد پر ہیں تو اس کے تو دورس نتائج ہوتے ہیں۔ جہاں تک بنگلہ دیش اور پاکستان کا تعلق ہے ہم پہلے شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت میں بھی کوشش کرتے رہے ہیں کہ دوریاں قربتوں میں بدلیں لیکن ان کا جھکاؤ انڈیا کی طرف تھا اور وہ انڈیا کی ہی پالیسی کو فالو کر رہیں تھیں۔ امید ہے کہ جو سلسلہ چل پڑا ہے جاری رہے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا بنگلہ دیش کا دورہ بھی جلد ہونے والا ہے۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ سال کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر محمد یونس بھی پاکستان آئیں گے۔ ہمیں بھی بنگلہ دیش کے ساتھ فلائٹ شیڈول جلد بحال کرانا چاہیے اور ایک مسلم ملٹری الائنس پر بھی کام کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے تعلق کو انڈیا کے لینس سے نہیں دیکھنا بلکہ ماضی کی تلخیوں کو بھلانا ہو گا۔‘