پاکستانی ڈراموں کے موضوعات پر بعض اوقات اعتراض تو بہت ہوتا ہے لیکن ان میں بہت سے ڈرامے معاشرے کے اہم ترین مسائل کو اجاگر کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
حال ہی میں اے آر وائی چینل پر شروع ہونے والا ڈراما ’مائی ری‘ کم عمری کی شادی کے موضوع پر بنایا گیا ہے۔
اس ڈرامے میں مرکزی کردار عینا آصف ادا کر رہی ہیں جو اس سے پہلے ’بے بی باجی،‘ ’ہم تم،‘ اور ’پنجرہ‘ سمیت کئی مشہور ڈراموں میں کام کر چکی ہیں۔
14 سال کی عمر میں عینا آصف نے پاکستانی ٹی وی ڈراموں میں اپنی جاندار اداکاری سے ایک منفرد مقام بنا لیا ہے۔
صرف 11 سال کی عمر ہی میں ٹی وی ڈراموں میں قدم رکھنے والی عینا آصف نے ’پہلی سی محبت‘ میں ’رخشی‘ یعنی مایا علی کے بچپن کا کردار نبھایا تھا۔
میں نے اس انٹرویو کے سلسلے میں عینا آصف کی والدہ سے درخواست کی جو انہوں نے بخوشی منظور کر لی۔
جب میں عینا آصف کے پاس پہنچا تو ان کی والدہ نے استقبال کیا اور عینا کو بلا کر ان سے ملوایا۔ پھر یہ انٹرویو ہم نے ان کی والدہ کی اجازت لے کر ان کی موجودگی ہی میں ریکارڈ کیا۔
ہم نے عینا سے کہا: ’آپ کا انٹرویو اس لیے کر ر ہے ہیں کیونکہ یہ بچی ہیں اور آج کل کے بچوں کو سنبھالنا آسان کام نہیں۔‘
انہوں نے برجستہ جواب دیا: ’میں تو ضدی بچی ہوں تو مجھے تو سنبھالنا بہت مشکل ہے۔‘
عینا آصف سے میرا پہلا سوال یہی تھا کہ ’آپ ایک کے بعد ایک مشہور اور کامیاب ڈرامے کر رہی ہیں، یہ آپ کی قسمت ہے یا سمجھداری؟‘
انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، ’یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم ہے۔ میں اصل میں کردار کو دیکھتی ہوں، کہ یہ کردار کیسا ہے۔ کچھ کردار ایسے ہوتے تھے کہ مجھے امید نہیں تھی کہ یہ مشہور ہوں گے مگر ہو گئے۔‘
اپنی شہرت کے بارے میں عینا کا کہنا تھا کہ انہیں اس کا کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا کیونکہ سکول میں تو سارے اساتذہ اور دوست ویسے ہی سلوک کرتے ہیں جیسے پہلے کرتے تھے، ’البتہ جب کبھی باہر جاتی ہوں اور لوگ آ کر میرے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں، تو اس وقت فخر محسوس ہوتا ہے کہ یہ چیز میں نے محنت کرکے حاصل کی ہے۔‘
اپنے ڈرامے ’مائی ری‘ کے بارے میں عینا نے بتایا کہ انہیں ابتدا میں بہت گھبراہٹ ہوئی تھی کیونکہ اس سے پہلے جتنے ڈرامے کیے تھے اُن میں اِن کا بہت بڑا کردار نہیں تھا۔
’پہلے میں ایک سین کا حصہ ہوتی تھی، سین مجھ پر نہیں ہوتا تھا، اب سین مجھ پر ہوتا ہے اور لوگ اس کا حصہ ہوتے ہیں، اس لیے شروع میں کافی دباؤ محسوس ہوتا تھا، لیکن کاسٹ کے دیگر افراد نے بہت مدد کی، اس لیے اب میں اطمینان سے کر لیتی ہوں۔‘
اپنے کردار کے بارے میں عینا نے بتایا کہ اکثر سیٹ پر لوگ انہیں عینی کی جگہ عینا کہہ دیتے ہیں، شوٹنگ کے دوران یہ بہت ہوا، اور اصل زندگی میں لوگ عینا کی جگہ عینی کہہ دیتے ہیں، لیکن کردار کا یہ نام انہوں نے خود نہیں تجویز کیا تھا۔
’جب میں نے عینی کا کردار پڑھا، تو کافی مماثلت محسوس ہوئی کہ ہم دونوں ضدی ہیں اور ہمیں جو چاہیے وہ چاہیے، تو میں نے سوچا کہ اگر یہ کسی اور نے کیا تو مجھے اچھا نہیں لگے گا، یہی سوچ کر یہ کردار کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عینا نے کہا کہ جب وہ ڈرامے میں دلہن بنیں تو انہیں نے سوچا کہ لوگ یہ کیوں کرتے ہیں، اتنے بڑے بڑے جھمکے، ہار، نتھ، ٹیکا وغیرہ، کیونکہ اس وقت گرمی تھی، وہ سب بہت مشکل تھا۔
’مگر مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا سوائے اس کے کہ میں نے لہنگا پہنا ہوا ہے۔ ویسے امی سے پوچھا تھا کہ انہیں کیسے لگ رہا ہے کہ میں دلہن بنی ہوں، تو انہوں نے نے کہا، ’کچھ نہیں محسوس ہو رہا،‘ اور انہوں نے کہا کہ ’جب تک تم اس عمر کو پہنچو گی تو کئی بار دلہن بن چکی ہو گی، اس لیے مت پوچھو۔‘
عینا آصف نے بتایا: ’میں روز صبح اٹھ کر اپنے معمولات کے دوران یہ سوچتی تھی کہ اگر شادی ہو چکی ہوتی تو کیا یہ سب کر سکتی تھی، جیسے صبح امی نے ناشتہ دے دیا، یونیفارم استری کردیا، اگر شادی شدہ ہوتیں تو اپنا اور اپنے شوہر کا خیال رکھنا پڑتا اور 14 سال کی عمر میں اتنی ساری ذمےداریاں!‘
اپنی جاندار اداکاری کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ یہ کام ان کے ہدایت کار کا ہے، جنہوں نے سمجھا کر یہ کردار کروایا اور ایک ایک چیز سمجھائی۔
عینا نے بتایا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں، ابھی ان کا او لیول شروع ہوا ہے، وہ صبح ساڑھے چھ بجے اٹھتی ہیں، سکول جاتی ہیں، پھر وہیں سے شوٹ پر جاتی ہیں اور وہیں اپنا ہوم ورک کر لیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ رات دس بجے واپس آ کر میک اپ صاف کر کے سو جاتی ہیں، یعنی چھ سے سات گھنٹے کی نیند ہوتی ہے۔
اپنے ڈرامے ’بے بی باجی‘ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ٹیم اچھی تھی، بہت کچھ سیکھا اس ڈرامے سے جبکہ ’ہم تم‘ ان کے دل کے قریب ہے اس لیے وہ اسے ہمیشہ یاد رکھیں گی کیونکہ وہ خود کھیلوں میں بہت دلچسپی لیتی ہیں۔
آخر میں عینا نے کہا کہ وہ صبا قمر کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہیں، اگر وہ صبا قمر کے ساتھ کام کر لیتی ہیں تو وہ سمجھیں گی کہ انہیں نے وہ مقام حاصل کرلیا ہے جو وہ چاہتی تھیں۔