تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات: پنجاب حکومت تاخیر کیوں کر رہی ہے؟

الیکشن کمیشن کے احکامات کے باوجود صوبہ پنجاب میں تاحال لوکل گورنمنٹ کی سطح پرانتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکا، انڈپینڈنٹ اردو نے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے۔

پانچ دسمبر 2015 کی اس تصویر میں کراچی کے ایک پولنگ سٹیشن پر بلدیاتی انتخابات کے دوران ووٹوں کی گنتی کا ایک منظر(اے ایف پی)

پاکستان کے تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جا چکا ہے تاہم ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں الیکشن کمیشن کے احکامات کے باوجود تاحال لوکل گورنمنٹ کی سطح پرانتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکا، انڈپینڈنٹ اردو نے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے۔

صوبہ پنجاب میں 10 سال سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’جمہوری حکومت نچلی سطح پر اختیارات منتقل کرنے سے گریز کرتی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہے۔‘

پنجاب میں پہلے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں کروا سکی، اب مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکی، جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب میں فوری بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

جماعت اسلامی نے لاہور ہائی کورٹ میں صوبے میں 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے درخواست دائر کر دی ہے۔

ریکارڈ کے مطابق الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے تین مرتبہ حلقہ بندیاں کیں اور دیگر ضروری اقدامات اٹھائے۔ 

پی ٹی آئی دور میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول دینے کے باوجود اب تک صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا، تاہم پنجاب حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی ایکٹ 2024 میں ترامیمی بل پنجاب اسمبلی سے جلد پاس کروانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، جس کے بعد الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کی تفصیل اور انتخابی شیڈول جاری کر سکے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ’بدقسمتی سے کوئی بھی جمہوری حکومت بلدیاتی انتخابات کو ترجیح نہیں دیتی، لہٰذا موجودہ حکومت بھی اس معاملے پر سنجیدہ نہیں، البتہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اگر ہوتے ہیں تو یہ الیکشن کمیشن کے احکامات پر ہوں گے۔‘

پنجاب میں بلدیاتی انتخاب میں تاخیر کیوں؟

26 فروری 2025 کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے حکومت سنبھالتے ہی لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر کام شروع کر دیا تھا کیونکہ تمام شراکت داروں کی جانب سے رائے کا اظہار ضروری ہوتا ہے لہٰذا اب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا بنیادی مسودہ پنجاب اسمبلی میں ضروری قانون سازی کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔  

’جونہی قانون سازی  کا عمل مکمل  ہوتا ہے تو قانون کے تحت رولز بھی  بنا دیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن صوبے میں انتخابات کے انعقاد کے لیے صوبائی حکومت کی ہر قسم کی معاونت کے لیے بھی تیار ہے۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما رکن پنجاب اسمبلی راجہ شوکت عزیز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہماری بلدیاتی انتخابات سے متعلق تیاری مکمل ہے، اس حوالے سے نواز شریف اور مریم نواز اراکین صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں اور ہماری قیادت بلدیاتی انتخابات کی تیاری سے متعلق ہدایات جاری کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم کے لیے بل اسمبلی میں پیش ہوچکا ہے جو جلد ہی پاس کر لیا جائے گا۔‘

راجہ شوکت کے مطابق: ’نئے قانون کے تحت اضلاع کی بجائے تحصیلوں میں ٹاؤنز چیئرمین بنائے جائیں گے، ہر یونین کونسل میں نو ممبران ہوں گے جو اپنا چیئرمین منتخب کریں گے۔ یونین کونسل سے منتخب نمائندے تحصیل اور ٹاون کے چیئرمین منتخب کریں گے۔‘

اپوزیشن جماعتیں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہ کروائے جانے پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ 

پنجاب میں قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہیں، ہمارے امیدوار بھی طے ہیں لیکن حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے سے اس لیے گریز کر رہی ہے کہ انہیں عوام کی حمایت نہ پہلے حاصل تھی نہ ہی اب لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔

’اس لیے حکومت اپنی مرضی سے قانون سازی کرنا چاہتی ہے اور تاخیری حربے بھی استعمال کر رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کروا دی ہے لیکن ابھی تک اجلاس نہیں بلایا گیا، جب اجلاس میں بلدیاتی ترامیمی بل پیش ہو گا تو ہم اپنے اعترضات جمع کروائیں گے۔‘

جماعت اسلامی لاہور کے امیر ضیا الدین انصاری نے لاہور ہائی کورٹ میں جمعرات کو درخواست دائر کی کہ ’پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے جا رہے، آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت بلدیاتی انتخابات کروانا لازمی ہے۔ جمہوری نظام میں گراس روٹ لیول پر اختیارات منتقل کیے جاتے ہیں۔

’موجودہ ایکٹ میں بیوروکریسی کو مالی اختیار دینا منتخب نمائندوں کی حق تلفی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے عدم انعقاد کے باعث جاگیرداروں کا عروج جبکہ کمزور طبقہ مزید کمزور ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عدالت وفاقی حکومت اور الیکشن کمشن کو پنجاب میں 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم دے۔ عدالت آئینی فرائض سے غفلت برتنے پر فریقین کو جرمانہ بھی عائد کرے، عدالت موجودہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کا حکم دے۔

’درخواست میں وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔‘

کیا حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے واقعی گریزاں ہے؟

تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپیںڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کیا، کوئی بھی جمہوری حکومت نچلی سطح تک اختیارات منتقل کرنے کی حامی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔

’ہائی کورٹ بارز کے حالیہ انتخابات میں لاہور، راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں ن لیگ کے حامی امیدواروں کو شکست ہوئی، اسی طرح عوامی سطح پر ن لیگ کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں حمایت حاصل نہیں۔ اس لیے حکومت خوفزدہ ہے کہ انہیں شکست نہ ہو جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مریم نواز سمیت ہر وزیر اعلیٰ چاہتا ہے کہ تمام اختیارات صوبائی حکومت کے پاس رہیں اور وہ اپنی مرضی سے حکومت چلائیں۔ لوگوں کو اپنا حامی بنانے کے لیے ممبران اسمبلی سے کام چلایا جائے جبکہ نچلی سطح تک اختیارات سے انہیں فنڈز بھی دینے پڑتے ہیں اور سیاسی مقاصد بھی اس طرح حاصل نہیں ہوتے جس طرح یہ کرنا چاہتے ہیں۔

’لہٰذا عوامی مسائل کا نچلی سطح پر حل کسی حکومت کی ترجیح نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ گلیاں، نالیاں، سولنگ جیسے بنیادی مسائل بھی اراکین قومی اسمبلی یا اراکین صوبائی اسمبلی کے ڈیرے پر جا کر ہی حل ہوتے ہیں۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’بدقسمتی سے جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر عوام کو آسانیاں دینے کی بجائے تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

’اس طرح کی سوچ کی وجہ سے ہی سیاسی جماعتیں عوام میں جمہوریت کے ثمرات پہنچانے میں ناکام ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کا فرق ہی محسوس نہیں کر سکے، سیاسی جدوجہد بھی اسی لیے اقتدار تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔‘

سلمان غنی کے مطابق ’اگر دیکھا جائے تو ماشل لا کے ادوار میں زیادہ بہتر اور بااختیار بلدیاتی حکومتیں کام کرتی رہیں۔ ان ادوار میں اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوئے اور لوگوں کو ضلعی حکومتوں کی افادیت کا اندازہ ہوا۔

’موجودہ حکومت بھی کیونکہ سیاسی جماعت کی ہے اس لیے ان کی ترجیح بھی بلدیاتی نظام کی بجائے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی سوچ دکھائی دیتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست