شدت پسندی اور میڈیا: ایک خطرناک گٹھ جوڑ

اس بات کا تفصیلی جائزہ برجیٹ ایل نیکوس نے اپنی کتاب ’دہشت گردی اور میڈیا‘ (1996) میں لیا تھا، جس میں عسکریت پسندی اور میڈیا کے باہمی تعلقات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا تھا۔

پاکستانی اساتذہ اور طلبہ 16 دسمبر 2014 کے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ہونے والے حملے کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے مشعلیں اٹھائے ہوئے ہیں (عارف علی / اے ایف پی)

عسکریت پسند گروہ اپنے نظریات کو پھیلانے، خوف و ہراس پیدا کرنے اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے میڈیا کے محتاج ہیں، جب کہ میڈیا ادارے سنسنی خیز خبروں کی تلاش میں اکثر عسکریت پسندوں کے بیانیے کو مزید نمایاں کر دیتے ہیں۔

اس بات کا تفصیلی جائزہ برجیٹ ایل نیکوس نے اپنی کتاب ’دہشت گردی اور میڈیا‘ (1996) میں لیا تھا، جس میں عسکریت پسندی اور میڈیا کے باہمی تعلقات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا تھا۔

اس کتاب کے شائع ہونے کی ایک دہائی بعد سوشل میڈیا سامنے آیا اور آن لائن نیوز چینلوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ اس کے باعث نیکوس نے جس رجحان کی طرف اشارہ کیا تھا، وہ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہو گیا ہے، جہاں عسکریت پسندانہ نظریات کو پھیلانے کے لیے نئی راہیں میسر آ رہی ہیں۔

عسکریت پسندی اور میڈیا ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں: عسکریت پسند گروہ اپنی کارروائیوں کی نفسیاتی شدت میں اضافے کے لیے میڈیا کوریج کے محتاج ہوتے ہیں، جبکہ میڈیا ادارے عسکریت پسندی کو ایک پرکشش خبر کے طور پر دیکھتے ہیں۔

حملے اکثر ایسے مقامات پر کیے جاتے ہیں جو علامتی حیثیت رکھتے ہوں یا جہاں زیادہ سے زیادہ تباہی مچائی جا سکے تاکہ میڈیا میں نمایاں کوریج حاصل کی جا سکے۔ میڈیا، چاہے دانستہ یا نادانستہ، دہشت گردوں کو وہ نمایاں حیثیت دے دیتا ہے جس کی وہ تلاش میں ہوتے ہیں، اور ان کی کارروائیوں کو مزید موثر بنا دیتا ہے۔ بار بار نشر ہونے والی شدت پسندی کی خبریں عوام میں خوف و ہراس بڑھاتی ہیں، جو بالآخر دہشت گردوں کے مقاصد کو تقویت دیتی ہیں۔

میڈیا میں شدت پسند حملوں کو پیش کرنے کا طریقہ عوامی رائے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ سنسنی خیز رپورٹنگ نہ صرف خوف اور تعصبات کو بڑھا سکتی ہے بلکہ بعض اوقات عسکریت پسند گروہوں کے بیانیے کو بھی طاقتور بنا سکتی ہے۔ جب میڈیا کسی حملے کے پس منظر اور اس کے حقیقی محرکات پر توجہ دینے کے بجائے صرف حملہ آور کی شناخت، مذہبی یا نظریاتی وابستگی کو اجاگر کرتا ہے، تو اس سے سماجی تقسیم مزید گہری ہو جاتی ہے، جس کا فائدہ انتہا پسند گروہ اٹھاتے ہیں۔

میڈیا کی منتخب کردہ رپورٹنگ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کچھ مخصوص گروہوں کے حملوں کو نمایاں کوریج دی جاتی ہے، جبکہ دیگر عسکریت پسندانہ کارروائیوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جس سے شدت پسند کی حقیقت کو جانبدارانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔

میڈیا کی طرف سے عسکریت پسند کی مسلسل اور وسیع کوریج کے کئی غیر ارادی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک سب سے بڑا خطرہ ’نقل شدہ دہشت گردی‘ (Copycat Terrorism)  ہے، جس میں کچھ افراد یا گروہ میڈیا میں دکھائی گئی عسکریت پسندی سے متاثر ہو کر ویسی ہی کارروائیاں دہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

عسکریت پسند گروہ میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے انتہائی خوفناک اور اشتعال انگیز مناظر تخلیق کرتے ہیں تاکہ ان کی تنظیم کے بیانیے کو پھیلایا جا سکے اور نئے بھرتی ہونے والوں کو متاثر کیا جا سکے۔ اسی طرح عسکریت پسندانہ حملوں کو ایک سنسنی خیز تماشے میں تبدیل کرنا (Spectacularization of Terrorism) ان کے نفسیاتی اثرات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے، اور حملہ آوروں کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کا رجحان مزید عسکریت پسندوں کو متوجہ کر سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میڈیا کی مسلسل کوریج عوامی دباؤ کو بڑھا دیتی ہے، جس کی وجہ سے حکومتوں کو عسکریت پسندی کے خلاف فوری اقدامات کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات، یہ عجلت میں کیے گئے فیصلے غیر موثر یا نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، جیسے غیر ضروری فوجی کارروائیاں یا سخت سکیورٹی پالیسیاں جو مزید مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔ جب حکومتیں میڈیا کے دباؤ میں آ کر جذباتی فیصلے کرتی ہیں، تو بعض اوقات اس کا فائدہ خود عسکریت پسندوں کو پہنچتا ہے، کیونکہ غیر متوازن پالیسیوں کی وجہ سے کچھ مخصوص گروہ مزید انتہا پسندی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔

ڈیجیٹل دور میں، عسکریت پسندی اور میڈیا کے درمیان تعلق مزید پیچیدہ ہو گیا ہے، کیونکہ اب انتہا پسند گروہوں کے پاس براہ راست عالمی ناظرین تک رسائی کے ذرائع موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خفیہ میسجنگ ایپس، اور ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹس شدت پسند تنظیموں کو پروپیگنڈا پھیلانے، لوگوں کو بھرتی کرنے، اور حملے منظم کرنے کے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔

روایتی میڈیا کے برعکس، جہاں کسی حد تک ادارتی نگرانی موجود ہوتی ہے، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر عسکریت پسندانہ مواد کو روکنے کے لیے زیادہ موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ آج، عسکریت پسند گروہ جدید ڈیجیٹل حکمت عملیاں اپناتے ہیں، جیسے کہ وائرل مواد، مخصوص ہیش ٹیگز، اور انٹرایکٹو میڈیا کا استعمال، تاکہ نوجوانوں کو شدت پسند نظریات کی طرف راغب کیا جا سکے۔

انٹرنیٹ کی گمنامی نے انتہا پسند بیانیوں کو مزید فروغ دیا ہے، اور آن لائن گروپس اور فورمز میں نظریاتی شدت پسندی کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین، حقائق کی جانچ کے مؤثر نظام، اور حکومتوں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان تعاون ناگزیر ہو چکا ہے۔

عسکریت پسندی اور میڈیا کا یہ گٹھ جوڑ 24 گھنٹے کی نیوز سائیکل اور ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرچہ میڈیا عوام کو آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر اسے اس نازک حد کا بھی خیال رکھنا چاہیے جہاں رپورٹنگ غیر ارادی طور پر عسکریت پسندوں کے عزائم کو تقویت نہ پہنچا دے۔

اسی طرح، حکومتوں کو بھی جذباتی فیصلوں سے گریز کرنا چاہیے جو میڈیا کے دباؤ میں کیے گئے ہوں۔ سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر انتہا پسندی کے فروغ کو روکنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ ذمہ دارانہ صحافت، اخلاقی رپورٹنگ، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے لیے سخت ضوابط عسکریت پسندوں کے بیانیے کو مزید پھیلنے سے روکنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

اسد اللہ خان وزیر اسلام آباد میں مقیم ایک ملٹی میڈیا صحافی اور محقق ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ