نواز شریف سیاسی منظرنامے سے غائب کیوں ہیں؟

مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے مطابق وفاقی اور پنجاب حکومت پارٹی قائد نواز شریف کے احکامات کی روشنی میں چلائی جا رہی ہے، لیکن وہ سیاسی منظر نامے پر پوری طرح متحرک دکھائی نہیں دے رہے۔

19 اکتوبر 2023 کو مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی لاہور آمد سے قبل ایک پارک میں لگائے گئے ان کے ایک بڑے بینر کے قریب ایک مزدور کام کر رہا ہے (عارف علی / اے ایف پی)

پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کو وفاق اور صوبے میں حکومت بنائے ایک سال ہونے والا ہے، لیکن پارٹی کے بانی قائد نواز شریف سیاسی منظر نامے پر پوری طرح متحرک دکھائی نہیں دے رہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اب وہ پس منظر میں رہ کر اپنی بیٹی کو مستقبل کے لیے تیار کر رہے ہیں۔

لیکن مستقبل میں اس جماعت سے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار کون ہوگا، اس کا فیصلہ سیاسی حالات اور حکومتی کارکردگی پر منحصر ہوگا۔

اگرچہ مسلم لیگ ن کے رہنما شیخ روحیل اصغر کہتے ہیں کہ ’وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے، جس کے قائد میاں نواز شریف ہیں۔اب بھی ان کے ہی فیصلوں پر عمل ہو رہا ہے اور دونوں طرف حکومت ان ہی کی ہدایات پر کام کر رہی ہے۔‘

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی اپنی ہر تقریر میں اپنے والد کا تذکرہ ضرور کرتی ہیں اور بقول ان کے وفاقی اور پنجاب حکومت نواز شریف کے احکامات کی روشنی میں چلائی جا رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی بعض اوقات انہیں خراج تحسین پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف ماضی کی طرح اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ جاتی امرا میں واقع اپنی رہائش گاہ میں ہی زیادہ تر وقت گزارتے ہیں۔

نواز شریف سیاست میں متحرک کیوں نہیں؟ انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور اس حوالے سے جاننے کی کوشش کی۔

تجزیہ کار حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے خود پس منظر میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ان کا ’فرنٹ لائن کردار‘ اب پہلے کی طرح نہیں رہا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں حسن عسکری نے کہا: ’مسلم لیگ ن کے اندر بھی دیگر جماعتوں کی طرح سیاست موجود ہے۔ موجودہ صورت حال میں نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم اس لیے بنوایا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں۔ نواز شریف اکثریت کے ساتھ حکومت کرنے کے عادی ہیں، اس لیے انہوں نے خود پس منظر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’پنجاب میں اپنی بیٹی کو وزیراعلیٰ بنا کر مستقبل میں اہم کردار دینے کی تیاری کرنا مقصود ہے۔ ان دنوں تو جو کچھ بھی چل رہا ہے وہ واضح نہیں ہے کیونکہ یہ مخلوط حکومت ہے، لہذا ہر جماعت کی کوشش ہے کہ آئندہ انتخابات میں اکیلے اکثریت لینے کی تیاری کی جائے۔‘

حسن عسکری کے مطابق: ’نواز شریف سیاسی طور پر اب بھی اہم ترین لیڈر ہیں لیکن وہ سیاسی حکمت عملی کے تحت پیچھے بیٹھ کر وفاقی اور پنجاب حکومت چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اہم فیصلوں میں ان کی مشاورت بھی دکھائی دیتی ہے، لیکن فرنٹ لائن کردار اب پہلے کی طرح نہیں رہا۔‘

دوسری جانب تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ اب بھی اہم فیصلے نواز شریف کی مشاورت سے ہی ہو رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سلمان غنی نے کہا: ’نواز شریف ملک کے سب سے سینیئر لیڈر ہیں اور ملک میں اہم فیصلے اب بھی ان کی مشاورت سے ہو رہے ہیں، لیکن جس طرح اسٹیبلشمنٹ کا کردار زیادہ بڑھا ہوا ہے، اس میں شہباز شریف بھی بطور وزیراعظم بہتر کام کر رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار سیاسی جماعتوں کی نااہلیوں کی وجہ سے زیادہ ہوا، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے حالات میں قائد مسلم لیگ ن ملکی سیاسی قیادت کے ساتھ مشاورت میں ہیں اور مسائل حل کرنے میں جہاں ضروری ہوتا ہے، وہاں کردار بھی ادا کرتے ہیں، جیسے پی ٹی آئی سے مذاکراتی کمیٹی نواز شریف نے ہی تجویز کی ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’یہ تاثر ضرور موجود ہے کہ نواز شریف اپنی بیٹی کو وزارت عظمیٰ کی امیدوار بنانے کی تیاری کے لیے پیچھے بیٹھ کر کام کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف پر بھی نواز شریف کو اپنی بیٹی سے کم اعتماد نہیں، لہذا مستقبل میں بھی شہباز شریف کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ میں ’ن‘ چونکہ نواز شریف ہیں، اس لیے مرکزی کردار ان کا ہی رہے گا۔ وہ جسے چاہیں گے، آگے لائیں گے اور خود بھی قیادت جاری رکھ سکتے ہیں۔‘

تاہم حسن عسکری کہتے ہیں کہ نواز شریف کے اپنے، مریم نواز یا شہباز شریف کے مرکزی کردار کا فیصلہ آئندہ کے سیاسی حالات کریں گے۔ ’ہمارے ہاں اقتدار میں لانے کے لیے سب سے اہم کردار اسٹیبلشمنٹ کا ہوتا ہے، لہذا اگر وہ نواز شریف یا مریم کی بجائے شہباز شریف کے ساتھ کام کرنا زیادہ بہتر سمجھیں گے تو پھر مستقبل میں یہی فارمولا چلے گا۔ اگر انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا یا تحریک انصاف سے حکومتی مذاکرات کا کوئی بہتر نتیجہ نکلتا ہے تو پھر سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوسکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’سیاست میں کل کیا ہو جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ویسے تو نواز شریف یا مریم نواز بھی اسٹیبشلمںٹ پر مسلسل تنقید کرتے دکھائی نہیں دیے، جس طرح عمران خان مسلسل ان کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ پھر ابھی تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی حکومت کا سہارا ہیں۔ کل یہ کیا کرتے ہیں، یہ بھی معلوم نہیں، اس لیے مستقبل میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ملک کی سربراہی کس کا مقدر بنے گی۔‘

بقول حسن عسکری: ’نواز شریف سازگار ماحول میں دو تہائی اکثریت سے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تو اب شاید حالات انہیں ایسا موقع فراہم نہ کریں اور انہیں پس پردہ رہ کر ہی مستقبل میں بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست