امریکہ مجسمۂ آزادی واپس کرے: فرانسیسی سیاست دان

یہ مجسمہ فرانس نے 1886 میں امریکہ کو بطور تحفہ دیا تھا اور اس کے بعد سے آزادی کی علامت بن گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے مجسمۂ آزادی کے مطالبے کے جواب میں سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے (اینواتو)

’امریکیو، مجسمہ آزادی فرانس کو واپس کر دو۔‘ یہ کہنا ہے ایک فرانسیسی سیاست دان رافیل گلوکس مین کا، جو فرانس میں اس تجویز پر سرخیوں میں ہیں کہ امریکہ اس مجسمے کا اب حق دار نہیں رہا، جو تقریباً 140 سال قبل فرانس نے امریکہ کو بطور تحفہ دیا تھا۔

رافیل گلوکس مین یورپی پارلیمنٹ کے رکن اور فرانس میں ایک چھوٹی بائیں بازو کی جماعت کے شریک صدر ہیں۔ انہوں نے گذشتہ ہفتے کہا کہ کچھ امریکیوں نے ’ظالموں کی طرفداری کا فیصلہ کیا ہے۔‘ ان کا یہ بیان امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں زبردست تبدیلیوں سے فرانس اور یورپ کے دیگر حصوں میں پیدا ہونے والی بےچینی کی عکاسی کرتا ہے۔

گلوکس مین نے اتوار کے روز اپنی ’پبلک پلیس پارٹی‘ کے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’ہمیں مجسمہ آزادی واپس کر دو۔‘ اس پر لوگوں نے تالیاں اور سیٹیاں بجا کر تائید کی۔

گلوکس مین نے امریکہ کو مخاطب کر کے کہا، ’یہ آپ کے لیے ہمارا تحفہ تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ آپ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ ہمارے ساتھ یہاں خوش ہو گی۔‘

دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز ان تبصروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کو اب بھی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی حمایت پر ’شکر گزار‘ ہونا چاہیے۔

کیا فرانس مجسمہ آزادی کی واپسی کا دعویٰ کر سکتا ہے؟

اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے مجسمہ آزادی کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اس ادارے کے کاغذوں میں یہ مجسمہ امریکی حکومت کی ملکیت ہے۔

فرانس نے اس مجسمے کی تیاری کا منصوبہ 1876 میں امریکہ کی آزادی کی 100 ویں سالگرہ کے موقعے پر فرانس اور امریکہ کی دوستی کی علامت کے طور پر تیار کیا تھا۔

مزید پڑھیے

اس کے بعد فرانس اور جرمنی میں جنگ پھوٹ پڑی جس سے مجسمے کے لیے فنڈز جمع کرنے میں وقت لگا۔ پھر فیصلہ ہوا کہ مجسمے کا خرچ فرانس برداشت کرے گا جب کہ امریکہ اس کا چبوترہ اپنے پیسوں سے تعمیر کرے گا۔

اس مجسمے کو مشہور مجسمہ ساز بارتھولڈی نے تانبے سے بنایا تھا۔ اس کا بنیادی تصور انہوں نے رومی دیوی ’لیبراٹس‘ کے قدیم مجسموں سے لیا، جسے آزادی کی دیوی سمجھا جاتا ہے۔ مجسمے کی ’لیڈی لبرٹی‘ اپنے دائیں ہاتھ میں مشعل جب کہ بائیں ہاتھ میں ایک تختی تھام رکھی ہے جس پر رومن ہندوسوں میں چار جولائی 1776 رقم ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب امریکہ نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔

مجسمے کی بلندی 151 فٹ ایک انچ ہے، جب کہ چبوترے کو ملا کر بلندی 305 فٹ یا 95 میٹر تک پہنچ جاتی ہے۔

اس کو فرانس سے 350 ٹکڑوں میں سمندری جہاز کے ذریعے امریکہ منتقل کیا گیا۔ باضابطہ طور پر 28 اکتوبر 1886 کو اس کی نقاب کشائی کی گئی۔

عام خیال کے برعکس یہ مجسمہ امریکی شہر نیویارک میں نہیں بلکہ ریاست نیو جرسی میں نصب ہے۔ لیکن یہ ریاست نیویارک سے ملحق ہے اس لیے یہ غلط فہمی عام ہے۔

اس کے بعد آنے والے عشروں میں یہ مجسمہ آزادی کی علامت بن گیا۔ اپنے ملکوں میں جبر و تشدد کا سامنا کرنے والے تارکینِ وطن جب نیویارک کی بندرگاہ پہنچتے تھے اور یہ مجسمہ انہیں خوش آمدید کہتا اور ایک تابناک مستقبل کی راہ دکھاتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔

کیا فرانس کی حکومت بھی مجسمے کی آزادی کا مطالبہ کر سکتی ہے؟

گلوکس مین اتنے بڑے رہنما نہیں ہیں کہ ان کی اس تجویز کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کی حکومت سے حمایت ملے۔

فرانسیسی صدر خود ایک مشکل میں گرفتار ہیں۔ ایک طرف تو وہ ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں تو دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے کچھ فیصلوں، خاص طور پر ٹرمپ کے عائد کردہ محصولات میں اضافے کے خلاف سخت مزاحمت کر رہے ہیں۔

خود امریکہ پر تنقید کرنے کی بجائے میکروں نے اپنے وزیر اعظم فرانسوا بیرو کو ناقدانہ آواز بننے کا کردار ادا کرنے دیا ہے۔ بیرو نے یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کو ’سفاکی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرین کو فوجی امداد روک کر روس کو فتح دلانے کا خطرہ مول لیا ہے۔

گلوکس مین کی پارٹی نے اس سے بھی سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر الزامات پوسٹ کیے ہیں کہ ٹرمپ ’آمرانہ‘ انداز میں طاقت کا استعمال کر رہے ہیں اور روس کو ’چاندی کی طشتری پر یوکرین رکھ کر دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘

گلوکس مین نے کہا، ’آج، یہ سرزمین وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔‘

’صرف امریکہ کی وجہ سے فرانسیسی اب جرمن نہیں بول رہے‘

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ سے پیر کے روز گلوکس مین کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ امریکہ اس مجسمے سے ’بالکل دستبردار نہیں ہو گا۔‘

لیویٹ نے کہا، ’اس گمنام نچلے درجے کے فرانسیسی سیاست دان کو میری نصیحت یہ ہو گی کہ انہیں یاد دلایا جائے کہ صرف امریکہ کی وجہ سے فرانسیسی اب جرمن نہیں بول رہے ہیں۔‘ ان کا اشارہ دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ کا فرانس اور دوسرے اتحادی ملکوں کے ساتھ مل کر ہٹلر کے ساتھ جنگ لڑنے کے فیصلے کی طرف تھا۔

لیکن شکر گزاری کی تلوار دو دھاری ہے۔ لیویٹ نے یہ بات نظر انداز کر دی کہ اس سے قبل 19ویں صدی میں فرانس نے برطانیہ سے آزادی کی جنگ کے دوران امریکہ کی حمایت کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا