ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں پاکستان آنے والے افغان طالبان کے وفد نے وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) جنرل فیض حمید سے ملاقاتیں کی۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان کی طرف سے ڈیل کرنے والے ملا برادر ایک سال پہلے پاکستان میں قیدی تھے۔
ملا برادر افغانستان میں طالبان تحریک کے بانیوں میں سے ہیں۔ جب 2001 میں افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو وہ اُس وقت روپوش ہوگئے تھے۔ پھر 2010 میں پاکستانی حکام نے انہیں کراچی سے گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔
2013 میں جب طالبان سے مذاکرات کی بحث شروع ہوئی تو طالبان کی طرف سے مذاکرات کے آغاز کے لیے ملا برادر کی رہائی کی شرط رکھی گئی تھی۔ افغان حکومت کی جانب سے بھی ملا برادر کی رہائی کی باتیں کی گئیں اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ملا برادر کی رہائی کا عندیہ بھی دیا تھا مگر رہائی نہ ہو سکی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بالآخر اکتوبر 2018 میں پاکستان نے ملا برادر کو قید سے رہا کیا اور 2019 میں افغان طالبان اور امریکہ کے مذاکرات شروع ہوئے۔
امریکہ کی جانب سے حالیہ مذاکرات منسوخ کرنے سے پہلے جو معاہدہ طے ہوا تھا اس کا مسودہ بھی ملا برادر ہی نے لکھا تھا۔
ملا برادر کہتے ہیں: ’امارت اسلامیہ صدقِ دل سے امن کے لیے پرعزم ہے لیکن اس کا خیال ہے کہ پہلے امن کی راہ میں رکاوٹیں ختم کی جائیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان پر قبضہ ہے، جو ختم ہونا چاہیے۔‘
ملا برادر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ افغان طالبان کی سفارتکاری کا چہرہ بن چکے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کے ڈیل بروکر کی حیثیت سے ابھر رہے ہیں۔
گذشتہ روز کی ملاقاتوں میں ملا برادر اسی ملک کی قیادت کے شانہ بشانہ بیٹھے تھے جس ملک میں ٹھیک ایک سال پہلے تک وہ ایک قیدی تھے۔