قومی اسمبلی میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کا ترمیمی بل جمعے کو پیش کیا گیا جسے بعد ازاں متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
ایوان زیریں میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں مزید ترمیم کا بل وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے پیش کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والے بل کے مسودے کے مطابق، ’کسی بھی ایسے شخص کی امتناعی حراست کا حکم جاری کیا جا سکے گا جو اس ایکٹ کے تحت پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سلامتی یا دفاع سے متعلق کسی جرم میں، یا ہدف سے یا امن عامہ سے منسلک ہو۔‘
بل کے مطابق: ’اگر کسی شخص کے خلاف ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، اور بھتہ خوری، یا سامان یا خدمات کی دیکھ بھال، یا جس کے خلاف معقول شکایت کی گئی ہو یا مصدقہ اطلاع موصول ہوئی ہو، یا اس کے متعلق کوئی معقول شبہ موجود ہو، اس معاملے کی انکوائری کے لیے متعلقہ شخص کو مزید تین ماہ کے لیے زیر حراست رکھا جا سکے گا۔ اسے آئین پاکستان کے آرٹیکل 10 کے تحت زیر حراست رکھا سکے گا۔‘
بل کے مسودے کے مطابق مطلوبہ شخص کو تین ماہ کے بعد مزید تین ماہ زیر حراست رکھا جا سکے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جبکہ ان معاملات کی انکوائری کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی جائے گی، جس میں پولیس کے سپرنٹنڈنٹ، انٹیلی جنس ایجنسیاں، سول آرمڈ فورسز، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے افسران شامل ہوں گے۔
یہ قانون دو سال تک نافذ العمل رہے گا۔
قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے بعد انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کو غور کے لیے قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
2014 کے بعد دوبارہ بل لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں سال 2014 میں ترمیم کی گئی تھی۔
اغراض و مقاصد کے مطابق حکومت اور مجاز مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کو دہشت گردی سے متعلقہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شبے میں افراد کی preventive detention کا اختیار ہے۔
اس شق کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بااختیار بنانے کے لیے مرتب کیا گیا تھا تاکہ وہ مشتبہ افراد کو تین ماہ کے لیے حراست میں لے سکیں تاکہ مکمل پوچھ گچھ اور دہشت گردی کی ممکنہ کارروائیوں کی روک تھام کی جا سکے۔ تاہم یہ ترمیم sunset clause کے ساتھ مشروط تھی، جس کی مدت دو سال تک محدود تھی، جس کی میعاد سال 2016 میں ختم ہو گئی تھی۔
اغراض و مقاصد میں کہا گیا ہے کہ حکومت، مسلح افواج، اور سول آرمڈ فورسز کو بااختیار بنانے کے لیے دوبارہ اس قانون کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے افراد کو حراست میں لے سکیں جو قومی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ ہیں۔
یہ شق معلومات یا معقول شبے کی بنیاد پر مشتبہ افراد کو زیر حراست رکھنے کی اجازت دے گی، اس طرح دہشت گردی کی کارروائیوں پر عمل کرنے سے پہلے روکا جا سکے گا۔
اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عسکریت پسندی کے خلاف مزید موثر کارروائیاں کرنے کے لیے قانونی مدد ملے گی۔
مقاصد میں کہا گیا کہ اس بل سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اراکین جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں میں شامل ہوں گے، کو جامع تفتیش اور قابل عمل معلومات اکٹھی کرنے اور جامع انکوائری کرنے کے لیے مدد ملے گی۔