ٹیکنالوجی کی مکمل ناکامی کی صورت میں کیا ہو گا؟

بینکوں اور ادائیگی کرنے والی کمپنیوں سے لے کر ایئرلائنز اور ٹرین کمپنیوں تک نے کہا کہ وہ سائبر سکیورٹی فرم کراؤڈ سٹرائیک کی ایک غلط سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کی وجہ سے تاخیر اور تکنیکی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

مسافر 19 جولائی 2024 کو ہانگ کانگ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر چیک ان ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، کیونکہ کچھ ایئر لائنز دنیا بھر میں مائیکروسافٹ کی بندش کی وجہ سے دستی چیک ان کا سہارا لے رہی ہیں (آئزک لارنس / اے ایف پی)

پاور آؤٹیج اور انٹرنیٹ میں خلل اس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ہے کیونکہ دنیا بھر میں ونڈوز کی ایک خرابی نے زیادہ تر انفراسٹرکچر کو آف لائن کر دیا ہے، جہاز زمین پر کھڑے ہو گئے ہیں اور سکائی نیوز سمیت ٹی وی چینلز کی نشریات رک گئی ہیں۔

بینکوں اور ادائیگی کرنے والی کمپنیوں سے لے کر ایئرلائنز اور ٹرین کمپنیوں تک نے کہا کہ وہ سائبر سکیورٹی فرم کراؤڈ سٹرائیک کی ایک غلط سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کی وجہ سے تاخیر اور تکنیکی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں سابق نائب وزیر اعظم اولیور ڈاؤڈن نے اس وقت خبردار کیا تھا جب انہوں نے سائبر حملے کے دوران طویل مدتی خلل کے لیے ہم سب کی تیاری کے بارے میں سوچنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جبکہ سائبر سکیورٹی فرم کراؤڈ سٹرائیک کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو جارج کرتز نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس آؤٹیج کے سائبر حملہ ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا لیکن اس چیز نے یقینی طور پر ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

یہ نیٹ فلکس کی ہٹ فلم ’لیو دی ورلڈ بی ہائنڈ‘ کی بھی ایک یاد دلاتا ہے، جس میں ایک حملے کے فوری بعد کی خوفناک، تباہ کن دنیا کی تصویر پیش کی گئی ہے۔

فلم میں، پہلی بار جب کسی کو احساس ہوتا ہے کہ کوئی مسئلہ ہے تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے موبائل فون کے سگنل بند ہو گئے ہیں، اور ان کا وائی فائی چلا گیا ہے، لیکن کرداروں کو یہ جاننے کے لیے کہ حملہ شروع ہو چکا ہے، ان کی ٹی وی سکرینوں پر ایک پش نوٹیفیکیشن آتا ہے۔

حقیقت میں، اس اپریل میں ٹیسٹ کیا گیا ایمرجنسی الرٹ سسٹم برطانیہ میں استعمال کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے فون بجیں گے، اور ہمیں اس بارے میں مشورہ اور ہدایات ملیں گی کہ بڑے پیمانے پر حملے یا شدید موسمیاتی حالات کی صورت میں کیا کرنا ہے، چاہے وہ اندر رہنا ہو یا کسی محفوظ جگہ پر منتقل ہونا ہو۔

حکومت کے سالانہ تیاری کے منصوبے میں، جسے ڈاؤڈن نے رشی سونک کے دور میں متعارف کرایا تھا، اس میں مشورہ دیا گیا کہ لوگوں کے پاس ریڈیو کے متبادل غیر ڈیجیٹل طریقے ہوں، ساتھ ہی ساتھ طویل عرصے تک بجلی کی بندش کی صورت میں موم بتیاں اور آلات چلانے کے لیے پاور بینک بھی ہوں۔ دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر شخص کے پاس تین سے چار دن تک کافی کھانا اور پانی ہونا چاہیے۔

جب آپ سویڈن کے شہروں میں اپارٹمنٹ بلاکس کے تہہ خانوں میں اور زیر زمین میٹرو سٹیشنز اور کچھ تجارتی مراکز میں بھی 70 لاکھ شہریوں کے لیے بنکر کی گنجائش رکھتے ہیں تو ایسے منصوبے بے معنی ہو جاتے ہیں۔

اندر، تقریباً ایک ہفتے تک کافی رسد ہے اور امن کے وقت ایک جان لیوا حملے کی صورت میں ایک ایمرجنسی سائرن سسٹم ہے - جسے ’ہورس فریڈرک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، مارچ، جون، ستمبر اور دسمبر کے پہلے پیر کو سویڈش شہروں میں ٹھیک دوپہر تین بجے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

برطانیہ کا فزیکل ایئر ریڈ سائرن نیٹ ورک بھی ستر کی دہائی میں باقاعدگی سے ٹیسٹ کیا گیا تھا لیکن 1990 کی دہائی میں اسے ختم کر دیا گیا تھا۔ تاہم، رپورٹس کے مطابق تقریباً 1200 اب بھی استعمال میں ہیں - اور اگر قریبی باشندوں کے لیے کوئی فوری خطرہ ہو تو اس کا استعمال کیے جائیں گے۔

نیٹ فلکس فلم میں، کسی سنجیدہ مسئلے کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ ایک تیل کا ٹینکر ساحل پر چلا گیا ہے، جس کی وجہ نیویگیشن سسٹم میں خرابی تھی۔ بعد ازاں، ہم دیکھتے ہیں کہ طیارے آسمان سے گر رہے ہیں، جو Y2K میلینیئم بگ کے خوف کی یاد دلاتے ہیں، جب لوگوں کو خدشہ تھا کہ کمپیوٹر 2000 میں’’00‘‘ کی غلط تشریح کر کے اسے 1900 سمجھ سکتے، جس کے بارے میں بعض کا خیال تھا کہ یہ نیویگیشن سسٹم سے لے کر پاور انفراسٹرکچر تک ہر چیز میں خلل پیدا کرے گا۔

ایسا کبھی نہیں ہوا، اکثر اس لیے کہ پس پردہ بہت سے لوگوں نے کام کیا ، لیکن بین الاقوامی سطح پر پھر بھی مسئلے ہوئے جب 15 جوہری ری ایکٹر بند ہو گئے، ہوائی میں بجلی کی بندش ہوئی، اور چین اور ہانگ کانگ میں سرکاری کمپیوٹر ناکام ہو گئے۔

اگست 2023 میں برطانیہ میں ہوائی ٹریفک کنٹرول نظام خراب ہونے کی وجہ سے تمام پروازیں بند ہو گئیں، جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہم کمپیوٹر نظاموں پر کتنا زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا ہے کہ چھوٹی خرابیوں کے بھی وسیع اثرات ہو سکتے ہیں۔

اس فلائٹ آؤٹیج کو دور کرنے میں کئی دن لگ گئے کیونکہ برطانیہ کی ہوائی ٹریفک کنٹرول کی نگرانی کرنے والی کمپنی نیٹس اس بنیادی مسئلے کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی جس کی وجہ سے یہ ہوا تھا۔ لیکن کم از کم اس سے یہ ثابت ہوا کہ فضا میں موجود طیاروں کو گرنے سے روکنے کے لیے کافی ابتدائی انتباہی نظام اور متبادل منصوبے موجود ہیں۔ جیسا کہ ہم فلم میں دیکھتے ہیں۔

تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے سسٹمز کے باہمی منسلک ہونے کی اہمیت کو نظرانداز کر دیں – یہ انحصار اُس وقت سے کہیں زیادہ ہے جب ہم میلینیئم بگ کے بارے میں فکر مند تھے۔

تقریباً 15 سال پہلے، برطانیہ نے اپنی قومی سائبر سکیورٹی حکمت عملی کے ساتھ ایک راستہ اپنایا جس میں ترجیح اس بات کو دی گئی کہ حکومتی کمپیوٹر سسٹمز ہر قیمت پر چلتے رہنے چاہییں۔

لیونیٹ ناسبیکر، جو اس وقت برطانیہ کی مشترکہ انٹیلیجنس کمیٹی کی ایک سینئر انٹیلیجنس افسر تھیں اور جنہوں نے کابینہ آفس کی قومی سکیورٹی ہورائزن سکیننگ یونٹ کی بنیاد رکھی، کہتی ہیں کہ ’یہ 2009 میں غلط تھا کیونکہ ہم نے اس حقیقت کو بالکل نظرانداز کر دیا کہ معیشت کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی ورچوئل ہو چکا تھا، اور اس میں صرف اضافہ ہونے والا تھا۔‘

جبکہ ناسبیکر نے 2010 میں اپنا عہدہ چھوڑ دیا، وہ کہتی ہیں کہ ایک باہر والے کے نقطہ نظر سے، اس وقت سے اب تک زیادہ فرق نہیں پڑا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’ہم اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھے۔‘

تاہم، سیاران مارٹن، جو بلاوٹنک سکول آف گورنمنٹ میں پریکٹس کے پروفیسر ہیں اور اگست 2020 تک برطانیہ کے نیشنل سائبر سکیورٹی سینٹر کے پہلے سی ای او تھے، کا خیال ہے کہ اس طرح کے بڑے پیمانے پر سائبر حملے کے ہونے کا امکان ابھی بھی کم ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’دشمنی کے وسیع اور پیچیدہ اعلان کے بغیر ایسا ہونے کے امکانات بہت، بہت، بہت کم ہیں۔‘

ہم جسے قومی بنیادی ڈھانچہ سمجھتے ہیں، جیسا کہ نیشنل گرڈ، اس کی نسبتاً بہتر انداز میں حفاظت کی گئی ہے اور یہ دہائیوں سے ایسا ہی ہے۔

برطانیہ کی نیشنل پروٹیکٹیو سکیورٹی اتھارٹی (این پی ایس اے) 13 شعبوں کی فہرست بنائی ہے جنہیں وہ اہم سمجھتی ہے، جن میں توانائی، کیمیکل، اور سول نیو کلیئر، ساتھ ہی صحت، مواصلات، خوراک اور پانی شامل ہیں۔

این پی ایس اے کے مطابق ان 13 کو اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ ’ان ضروری سروسز کی دستیابی، سالمیت یا فراہمی پر بڑے نقصان دہ اثر کے نتیجے میں بہت زیادہ جانی نقصان پہنچ  سکتا ہے۔‘

ناسبیکر کہتی ہیں، ’تاہم، قومی بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ اگر مشکل ہدف ہے تو حملہ آور نرم ہدف تلاش کریں گے۔‘ مواصلات اہم ہے ، اور وہ کہتی ہیں: حکومت کے پاس اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مخصوص فراہم کنندگان کے ساتھ خصوصی معاہدے ہیں کہ کسی ایک جگہ بھی ناکامی نہیں ہوگی۔‘

تعطل میں ایسے چیزیں ہوتی ہیں جو عام لوگوں کو متاثر کرتی ہیں، جیسا کہ آپ کا انٹرنیٹ کنکشن اور ممکنہ طور پر آپ کی موبائل سروس جب لوگ اس طرف جاتے ہیں کیونکہ وہ وائی فائی استعمال نہیں کر سکتے۔ تاہم، ایمرجنسی سروسز پھر بھی کام کر سکتی ہیں - حکومت نے 2005 میں لندن پر 7/7 دہشت گردی کے حملے کے بعد سیکھا کہ مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچنے والے عام عوام کی طرح ایک ہی نیٹ ورک استعمال نہیں کر سکتے۔ ایمرجنسی سروسز ایک نیا سسٹم استعمال کرتی ہیں، جسے ایمرجنسی سروسز نیٹ ورک کہتے ہیں، جو بنیادی عوامی مواصلاتی نیٹ ورک سے الگ ہے۔

حال ہی میں لینڈ لائن فون سروسز پر توجہ دی گئی ہے اور خاص طور پر سائبر حملے میں ان کی اینالاگ ویلیو اور استعمال پر۔

سرے یونیورسٹی میں سائبر سکیورٹی کے پروفیسر ایلن ووڈورڈ کہتے ہیں کہ ’ہم پرانے فون سسٹم کو بند کر کے ایک قدم پیچھے جا رہے ہیں، جو ایک الگ نیٹ ورک تھا، الگ سے چلایا جاتا تھا اور اس کا تانبے کا انفراسٹرکچر تھا۔‘

بی ٹی اور دیگر ٹیلی فون فراہم کنندگان روایتی تانبے کے تاروں سے ڈیجیٹل متبادل کی طرف اپنی سروسز کو منتقل کر رہے ہیں، جو آئی پی (وی او آئی پی) ٹیکنالوجی کے ذریعے وائس پاور آئی پی سے چلتے ہیں - وہی ٹیکنالوجی جو سکائپ کی بنیاد ہے۔ تاہم، فون کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس سنگین واقعے میں سروسز جاری رکھنے کے لیے منصوبے موجود ہیں اور حکومت کے ساتھ باقاعدگی سے رابطہ قائم رکھتی ہے۔

ووڈورڈ کہتے ہیں کہ ’برطانیہ میں، ایک خفیہ فائدہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس کئی نیٹ ورک فراہم کنندگان ہیں۔ جبکہ بہت سے سروس فراہم کنندگان ایک ہی فزیکل نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں، کئی فزیکل موبائل نیٹ ورک موجود ہیں۔‘

سیاران مارٹن کا کہنا ہے کہ بینکوں کے لیے بھی یہی ٹھیک ہے، جن سب کے پاس بڑے سائبر حادثات کی صورت میں بیک اپ پلان موجود ہیں۔ مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ سروسز آن لائن رہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’بڑے بینک اور توانائی گرڈ بنیادی طور پر اس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ اگر ایک ناکام ہو جائے تو کسی اور جگہ سے پاور لی جا سکے۔‘

ووڈورڈ کہتے ہیں، ’بڑے پیمانے پر بہت زیادہ الیکٹرو مقناطیسی پلس کے علاوہ، عام صارفین کے لیے کچھ انفراسٹرکچر چلتا رہے گا۔ ایمرجنسی جنریٹر چالو ہو جائیں گے، جس سے بنیادی نظام آن لائن رہیں گے۔‘

فلم کے سب سے زیادہ متاثر کن مناظر میں سے ایک - کم از کم سوشل میڈیا پر، ٹیسلا کی خود چلنے والی برقی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس منظر نے ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک کی دھڑکنیں بڑھا دی ہیں، جنہوں نے فوری طور پر ایکس، سابقہ ​​ٹویٹر پر پوسٹ کیا کہ اگر بجلی بند ہو جائے تو ان کی جیسی برقی گاڑیاں پھر بھی چل سکتی ہیں۔ انہوں نے لکھا، ’اگر دنیا  میں مکمل افراتفری اور تباہی ہو جائے اور پیٹرول دستیاب نہ ہو، تب بھی ٹیسلا گاڑیاں شمسی پینلز سے چارج ہو سکتی ہیں۔‘

کیا RAC کے اندازے کے مطابق سڑکوں پر موجود تقریباً 850,000 مکمل طور پر برقی گاڑیاں شمسی توانائی سے چارج ہو سکیں گی یا نہیں، یہ مکمل طور پر معلوم نہیں ہے۔ تاہم، نسبیکر کا کہنا ہے کہ گاڑیاں یا جہاز غلط سمت میں جانے کا امکان موجود ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’اگر ایک وسیع پیمانے پر دستیاب سیٹ نیو پروڈکٹ کو تھوڑا سا تبدیل کر دیا جائے تاکہ سب کچھ خراب ہو جائے، تو اس کا اثر بہت بڑا ہو سکتا ہے۔ بالکل، انسان اسے صرف ہدایات کو نظرانداز کر کے اور اینالاگ منصوبے پر عمل کر کے رد کر سکتے ہیں۔ نقشے یاد ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسلسل مسائل کی صورت میں عوامی سروسز کا تسلسل اور خوراک تک رسائی اہم ہے۔

ریزلینس کیپیبلیٹیز پروگرام ایک قومی سطح کا منصوبہ ہے جو اس کی نگرانی کرتا ہے کہ ایک بڑی ایمرجنسی کی صورت میں کیا ہوتا ہے۔ مقامی سطح پر، ذمہ داری مقامی کونسلوں کو سونپی جائے گی جو یہ اتنظام کریں گی کہ کسی آفت کی صورت میں لوگوں کو نکال کر کہاں لے جانا ہے۔ ایک بڑے واقعے جیسا کہ جوہری حملے میں، خیال کیا جاتا ہے ملک بھر میں 50 سے زیادہ قابل استعمال جوہری بنکرز نہیں ہیں جن میں جگہ حکومت کے اہم ارکان، فوج اور ان لوگوں کے لیے جگہ رکھی جائے گی جن کی ضرورت حملے کے بعد ملک چلانے کے لیے ہوگی۔

تاہم، چھوٹے پیمانے پر، معمول کی سروس کو خراب ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ جس طرح ہم نے چند سال پہلے دیکھا تھا، جب سوئز نہر میں ایک ٹینکر پھنس گیا تھا اور کوویڈ کے وقت، جسٹ ان ٹائم سپلائی چینز میں خلل پڑا تھا، تو جلد ہی قلت پیدا ہو گئی تھی۔

2021  میں، تربیت یافتہ ٹرک ڈرائیورز کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی خوراک کی قلت کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج کو سٹینڈ بائی پر رکھا گیا تھا اور رائل لاجسٹک کور اور دیگر دستوں کو خوراک اور دیگر ضروری سامان، بشمول ضرورت پڑنے پر دوائی تقسیم کرنے میں مدد کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

فلم اور آج کل ہمارے ڈیجیٹل مسائل یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں کتنے اہم ہوگئے ہیں۔ نسبیکر کہتی ہیں، ’یہ پہچاننا ضروری ہے کہ جیسے جیسے ہم بہتر زندگی کے لیے اپنی دنیا کی زیادہ تر ذمہ داری ٹیکنالوجی پر ڈال رہے ہیں ، ہم اس پر زیادہ سے زیادہ انحصار ہو رہا ہے۔ اگرچہ ہم کتنی ہی تیاری کر لیں، پھر بھی ہمیں بڑی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘

لیکن ایک انتہائی حالت میں کیا ہم ایک دوسرے پر پل پڑیں گے یا ایک دوسرے سے تعاون کریں گے؟ جب آپ ایک اعداد و شمار پر غور کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ آفات میں بچائی جانے والی 90 فیصد زندگیاں ان کے آس پاس کے لوگوں نے بچائی ہیں نہ کہ ایمرجنسی سروسز، تو ہم امید کرتے ہیں کہ معاملہ مؤخر الذکر والا ہے۔
 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی