وفاقی ٹیکس محتسب نے گذشتہ ہفتے ایک ایسا فیصلہ دیا جو پاکستان میں تقریباً اڑھائی لاکھ نیٹ میٹرنگ صارفین پر بجلی بن کر گرا ہے، جس کے مطابق اب شمسی توانائی استعمال کرنے والے صارفین سے 18 فیصد سیلز ٹیکس لیا جائے گا۔
وفاقی ٹیکس محتسب نے کہا ہے کہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے یہ ٹیکس وصول نہ کر کے سرکاری خزانے کو 9.8 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کا اختیار صرف بجلی کی فراہمی پر ٹیرف کے تعین کا ہے، اسے سیلز ٹیکس یا انکم ٹیکس کی وصولی میں از خود کسی فیصلے کا اختیار نہیں ہے۔ اس طرح نیپرا یا اے ای ڈی بورڈ Alternative Energy Development Board کی جاری کردہ کوئی حکم نامہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 یا انکم ٹیکس آرڈیننس2001 کی شقوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
وفاقی ٹیکس محتسب نے یہ ہدایات کراچی الیکٹرک کے ایک صارف کی درخواست پر دی ہیں جنہوں نے یہ شکایت کی تھی کہ کے الیکٹرک ان سے اضافی ٹیکس وصول کر رہی ہے جو ملک کی دیگر ڈسکوز وصول نہیں کر رہیں جو کہ متبادل توانائی بورڈ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
وفاقی ٹیکس محتسب کے اس فیصلے کے بعد ملک کی تمام الیکٹرک سپلائی کمپنیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سولر صارفین سے اسی طرح ٹیکس وصول کریں جس طرح کے الیکٹرک لے رہی ہے۔
سولر صارفین کا بل اب کس حساب سے آئے گا؟
اس سے پہلے سولر صارفین صرف اس بجلی پر ٹیکس دیتے تھے جو وہ اضافی طور پر استعمال کرتے تھے مگر اب انہیں ان تمام یونٹس پر ٹیکس دینا ہو گا جو وہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کا تعلق ان کے اپنے سسٹم کے پیدا ہونے والے یونٹس سے نہیں ہو گا۔
مثال کے طور پر اگر نیٹ میٹرنگ کے کسی صارف نے ایک ہزار یونٹس استعمال کیے اور اس دوران اس کے اپنے سسٹم نے 900 یونٹس بنائے تو اسے پہلے والے طریق کار کے مطابق صرف ایک سو اضافی یونٹس پر ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ اب نئے فیصلے کے بعد اسے ایک ہزار یونٹس پر ہی ٹیکس دینا ہو گا جو 18 فیصد ہے۔
اس سے ایک تو یہ ہو گا کہ زیرو بل کے دن گئے اور دوسرا انہیں نمایاں طور پر بل ادا بھی کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہم اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے حالیہ ٹیرف کی بات کریں تو نیٹ میٹرنگ والے صارف جو ایک ہزار یونٹس استعمال کریں گے انہیں فی یونٹ 49.58 روپے کے حساب سے چارج ہوں گے جس کی مجموعی قیمت 49,580 روپے ہو گی۔ اب انہیں اس پر 18 فیصد ٹیکس دینا ہو گا جو 8940.24 روپے بنے گا، چاہے وہ اپنی کھپت سے زیادہ بجلی نیشنل گرڈ کو کیوں نہ دے رہے ہوں۔
کچھ ماہرین اس حوالے سے مخمصے کا شکار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب صارفین کو نیٹ یونٹس کے ساتھ گراس یونٹس پر بھی ٹیکس دینا پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میاں فرخ پرویز جو آئیسکو کے آڈٹ آفیسر ریٹائر ہوئے ہیں۔ جب آئیسکو نے پاکستان میں پہلی بار نیٹ میٹرنگ متعارف کروائی تھی تو وہ اس کمیٹی کا بھی حصہ تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نیٹ یونٹس سے مراد وہ یونٹس ہیں جو صارف نے استعمال کیے اور گراس یونٹس سے مراد وہ تمام یونٹس ہیں جو صارف نے گرڈ کو دیے اور وہاں سے لیے۔ یعنی اگر فیصلے میں گراس یونٹس پر ٹیکس وصول کرنے کا کہا گیا ہے تو پھر خرچ کرنے اور گرڈ کو دینے والے مجموعی یونٹس پر ٹیکس لاگو ہو گا۔
سولر صارفین کے پاس اب کیا آپشن بچا ہے؟
ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں شمسی توانائی کے لیے چھٹا موزوں ترین ملک ہے جہاں روزانہ اوسطاً تقریباً نو گھنٹے سورج کی روشنی موجود رہتی ہے، مگر اس کے باوجود وہ سولر انرجی پیدا کرنے ولے پہلے 15 ممالک میں شامل نہیں ہے۔
ہمارا ہمسایہ انڈیا اس وقت چین اور امریکہ کے بعد سولر انرجی پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے جس کی سولر انرجی کی پیداوار جولائی 2024 میں 85,474.41 میگا واٹ تھی۔
پاور ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں نیٹ میٹرنگ جو کہ 2021-2022 میں صرف 633 میگا واٹ تھی وہ مئی 2024 تک بڑھ کر 3,237 میگا واٹ ہو گئی ہے۔
اس طرح صرف تین سالوں میں اس میں تقریباً500 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں بجلی کے کل صارفین کی تعداد تین کروڑ 70 لاکھ کے لگ بھگ ہے اس میں سے صرف اڑھائی لاکھ جو کل صارفین کا تقریباً 0.6 فیصد بنتے ہیں وہ سولر کے ذریعے نیٹ میٹرنگ پر ہیں۔
مگر یہ صارفین نیشنل گرڈ کو جس کی کھپت 30 ہزار میگا واٹ سے کم رہتی ہے، اس میں ان کی پروڈکشن کا حصہ تقریباً 10 فیصد کے قریب ہے۔ یعنی یہ صارفین اگر 3,237 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم نہ کر رہے ہوتے تو نیشنل گرڈ کو یہ بجلی مہنگے داموں پرائیویٹ کمپنیوں سے خریدنا پڑتی۔
طاہر بشیر چیمہ واپڈا اور پیپکو کو سابق ایم ڈی اور مشیر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے دس لاکھ ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ گویا پاکستان کے وہ سولر صارفین جنہوں نے نیٹ میٹرنگ کروا رکھی ہے وہ نیشنل گرڈ میں جو بجلی دے رہے ہیں اسے اگر حکومت کو خود پیدا کرنا پڑتا تو اس پر حکومت کے تین ارب ڈالر سے زیادہ صرف ہو جاتے۔
رنیوایبل انرجی ایسوسی ایشن پاکستان کے سابق چیئرمین نثار لطیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی ٹیکس محتسب کے فیصلے کی مکمل تفصیلات کے بغیر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، تاہم نیٹ یونٹس اور گراس یونٹس کے فرق میں حکام کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں، پہلے اس کو واضح کیا جانا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر سولر صارفین کو اضافی ٹیکس لگتا بھی ہے تو ان کے پاس ایک حل بیٹریاں ہیں جن میں انقلابی پیش رفت ہوئی ہے۔ پانچ کلو واٹ سے ایک گیگا واٹ تک کی لیتھیم بیٹریاں بازار میں موجود ہیں جن کی عمر 12سے 20 سال تک ہے اور ان کی قیمتیں پچھلے سال کے مقابلے میں آدھی رہ گئی ہیں۔ اس لیے آف گرڈ جانے کا آپشن اب صارفین کی دسترس میں آ گیا ہے۔
اگر حکومت نے ان پر اضافی ٹیکس لگا دیے تو عنقریب صارفین واپڈا سے کہیں گے کہ آپ اپنی لائنیں اور گرڈ اٹھا کر لے جائیں انہیں اس کی ضرورت نہیں رہی۔
دنیا میں سولر انرجی کے فروغ کے لیے کیا کچھ ہو رہا ہے؟
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومتِ پاکستان نے سولر انرجی کے فروغ کے لیے متعدد سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں جن کے تحت نیٹ میٹرنگ صارفین اضافی بجلی نیشنل گرڈ کو بیچ سکتے ہیں۔
سولر پینل پر حکومت نے کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ سولر کے سامان پر سیلز ٹیکس بھی نہیں ہے جبکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے سولر سسٹم لگانے والوں کو کم شرح سود پر قرضے دینے کی سکیم بھی شروع کر رکھی ہے۔
پاکستان کے مقابلے میں انڈیا میں سولر سسٹم لگانے والوں کو 30 سے 70 فیصد تک سبسڈی دی جاتی ہے۔ صارف کےجتنے اخراجات سولر سسٹم لگوانے پر آتے ہیں پہلے سال ہی ان کا 40 فیصد حصہ مختلف مراعات کے ذریعے صارف کو واپس کر دیا جاتا ہے۔ چین بھی کم شرح سود پر گھریلو اور صنعتی صارفین کو سولر سسٹم لگوانے کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ امریکہ میں سولر سسٹم لگوانے والوں کو 26 فیصد ٹیکس کریڈٹس ملتے ہیں۔ اسی طرح کیلی فورنیا اور نیویارک کی ریاستوں میں صارفین کو اضافی سہولتیں بھی دی گئی ہیں۔
سولر لگوانے کے لیے قرضوں کی فراہمی اور سولر پر ٹیکس کی چھوٹ اس کے علاوہ ہے۔ برطانیہ میں بھی سولر کی درآمد اور سروسز پر زیرو فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس ہے جبکہ سولر انرجی والے گھر کو گرین ہاؤس کا درجہ دے کر اسے اضافی مراعات کا حقدار بھی قرار دیا گیا ہے۔
جرمنی میں جو گھریلو اور کمرشل صارفین 30کے وی تک کا سسٹم لگواتے ہیں انہیں پاور جنریشن ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اگر وہ انرجی سٹور کرنا چاہیں تو اس کے لیے حکومت انہیں کم شرح سود پر قرضے بھی دیتی ہے۔ پاکستان نے بھی متبادل توانائی کے فروغ کے لیے کئی اقدامات کیے جن کی وجہ سے سولر صارفین کی تعداد میں نمایا ں اضافہ ہوا مگر ماہرین وفاقی ٹیکس محتسب کے حالیہ فیصلے کو منفی قرار دے رہے ہیں جس سے پاکستان میں سولر انرجی کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے نیپر کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ان کا جواب آیا کہ نیپرا کو ابھی تک وفاقی ٹیکس محتسب کی جانب سے کوئی فیصلہ موصول نہیں ہوا موصول ہونے کے بعد نیپرا کا لیگل ڈیپارٹمنٹ اس کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گا کہ انہیں کیا کرنا ہے اس کے خلاف اپیل میں جانا ہے یا پھر دیگر آپشنز پر غور کرنا ہے۔