اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 27 ستمبر کو وزیراعظم عمران خان کی تقریر کو پاکستان بھر میں سراہا گیا اور سوشل میڈیا پر کئی دن تک اس کی دھوم رہی لیکن عالمی سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ملک کا سربراہ اس فورم پر آ کر تقریر کرتا ہے اور یہ معمول کی بات ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ کس کی تقریر میں کیا تھا اور نہ ہر ملک کا سربراہ دوسرے ملک کے سربراہ کی تقریر سنتا ہے۔
تاہم، ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر عمران خان کی تقریر کے کیا اثرات ہیں اور سفارتی ماہرین خصوصاً امریکی اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں؟ انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی۔
سابق امریکی سفیر اور ٹیکساس میں ری پبلکن پارٹی کی ٹکٹ پر کانگریس کے امیدوار فلپ ارونوف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ذاتی طور پر وہ عمران خان کو پسند کرتے ہیں اور اُن کی تقریر بھی اچھی تھی۔ ’سب سے زیادہ متاثر کن یہ تھا کہ تقریر کسی ٹیلی پرومپٹر کے بغیر تھی۔‘
تاہم انہوں نے کہا، ’عمران خان نے کشمیر کا مقدمہ پیش کرتے وقت اُس کی تاریخی حیثیت نہیں بتائی کہ کشمیر اہم اور متنازع علاقہ کیوں ہے؟‘
ارونوف کے مطابق کچھ تقاریر تاریخ تبدیل کر دیتی ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ عمران خان کی تقریر ایسی تھی جو پاکستان کے لیے بیرونی دنیا کی پالیسیوں کو تبدیل کر سکے۔‘
انہوں نے مزید کہا اقوام متحدہ میں ایک سو سے زائد تقاریر ہوتی ہیں اور کچھ عرصے بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہتا ہے کہ کس نے کیا کہا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی پروفیسر اور سفارتی تجزیہ کار لیسٹر ولسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر سے کچھ تبدیل ہوگا تو یہ غلط فہمی ہے۔
انہوں نے کہا پوری دنیا کے سربراہان مملکت آتے ہیں، تقاریر کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ ہر سال ایسے ہی چلتا ہے۔
ولسن کے خیال میں عمران خان کی تقریر پوری دنیا کے لیے نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کے لیے تھی یا صرف پاکستانی اور بھارتی عوام کے لیے تھی۔
وولسن سینٹر واشنگٹن کے ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار مائیکل کگلمین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، 'یقینی طور پر پاکستانی وزیراعظم کے لیے ایک بڑا موقع تھا کہ انہوں نے اقوام عالم کے سامنے تقریر کی اور اپنا موقف پیش کیا لیکن انہیں نہیں لگتا کہ کشمیر کے معاملے پر طاقتور ممالک کا ذہن تبدیل ہوا ہو گا کیونکہ صرف پاکستان نہیں بلکہ بھارت بھی اس معاملے پر طاقتور ممالک کے ساتھ سفارت کاری کر رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا بیرونی دنیا پر تقریر سے زیادہ موثر سفارت کاری اثرانداز ہوتی ہے۔
’پاکستان کا بڑا مسئلہ تاثر کا بھی ہے کیونکہ بہت سے ممالک پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے اور بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان کے لیے ساکھ کا مسئلہ ہے اور انہوں نے تقریر میں اسلامو فوبیا پر بات کر کے یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کی لیکن مثبت تاثر کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے صرف بولنے سے معاملات حل نہیں ہوتے۔‘