بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے اور مرکزی حکومت نے نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کی بھی منظوری دے دی ہے تاہم ماہی گیر ترقیاتی کاموں کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔
ناخدا اسماعیل کی عمر تقریباً سو سال اور ان کا آبائی پیشہ ماہی گیری ہے۔ ان کی فائبر کی کشتی تین سال سے بغیر انجن کے ساحل پر پڑی ہے۔ وہ امداد کے طلب گار نہیں بلکہ اپنے پیشے کو لاحق خطرات سے پریشان ہیں۔
اسماعیل کے مطابق ان کا مسئلہ کسی امداد سے حل نہیں ہوگا بلکہ دیمی زر ایکسپریس وے کا منصوبہ شاید ہمیشہ کے لیے سمندر سے ان کا تعلق ختم کر دے۔
اسماعیل کے بقول: ’سمندر سے ہمارا تعلق ختم ہوگیا تو ہمارے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں رہے گا۔ چونکہ ہم روزانہ مچھلی کا شکار کرنے جاتے ہیں جو کبھی کم ہوتی ہے کبھی زیادہ ہوتی ہے۔‘
گوادر کے ماہی گیر سمجھتے ہیں کہ ترقی ہونی چاہیے لیکن اس کے بدلے میں ان کے صدیوں پرانے پیشے پر کوئی ضرب نہ لگے۔ ان کے رہنما بھی اجتماعی مسائل کے حل کے خواہاں ہیں۔
ماہی گیروں کے حقوق کے لیے مختلف تنظیموں کا اتحاد ’گوادر ماہی گیر اتحاد‘ کے جنرل سیکرٹری یونس انور، چین کی طرف سے امداد کا خیر مقدم کرتے ہیں تاہم وہ اسے ماہی گیروں کے مسائل کا حل نہیں سمجھتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونس انور کے مطابق گوادر کے ماہی گیروں کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بریک واٹر کا ہے۔ اگر وہ نہ بن سکا تو کسی بھی طوفان کی وجہ سے ماہی گیروں کی 14 سے زائد بستیاں ختم ہوسکتی ہیں۔
ماہی گیر اتحاد کے اعداد وشمار کے مطابق گوادر میں 40 ہزار لوگ براہ راست ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں جبکہ 80 ہزار لوگ بالواسطہ ماہی گیری کے شعبے سے منسلک ہیں۔
یونس انور کے مطابق چین کی طرف سے17 بوٹس کے انجن، 25 سولر لائٹس، 200 جال، 700 چھوٹی سولر لائٹس ملی ہیں، جنہیں ہم نے ماہی گیروں میں منصفانہ طور پر تقسیم کردیا ہے۔
یونس انور کے بقول: ’گوادر پورٹ سے سمندر میں مچھلیوں کی افزائشِ نسل متاثر ہو رہی ہے جو مستقبل میں مزید خطرناک صورتحال اختیار کرسکتی ہے، جب بڑے بڑے جہاز یہاں لنگر انداز ہوں گے، جس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی مصنوعی جگہ بنائی جائے۔‘
یار رہے کہ گوادر وہ واحد ساحلی مقام ہے، جہاں سارا سال مچھلی کا شکار کیا جاتا ہے جبکہ بلوچستان کے دوسرے ساحلی علاقوں میں کچھ مہینے مچھلی کا شکار بند رہتا ہے۔
یونس انور کے مطابق گوادر کے ماہی گیر آج بھی صحت اور تعلیم کے بنیادی مسائل سے دوچار ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے، جس کا ہم نے چین کے حکام، وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔
گوادر کے سماجی کارکن اور ماہی گیروں کے مسائل پر نظر رکھنے والے جاوید حیات سمجھتے ہیں کہ صرف 17 انجنز کی فراہمی ماہی گیروں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
جاوید حیات کے مطابق اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دیمی زر ایکسپریس وے کی تعمیر ہے، جس کی وجہ سے ساڑھے چار کلو میٹر ساحل دفن ہونے جا رہا ہے۔
سی پیک کے تحت گوادر میں پورٹ کے علاوہ ایکسپریس وے اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔
جاوید حیات کے بقول: ’گوادر کے لوگ ترقی کے مخالف نہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ترقی کے بدلے ہمارے ہزار سالہ قدیم روزگار کا خاتمہ نہ ہو، جس کو مدنظر رکھنا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’چین کی طرح کی امداد تو محکمہ فشریز بھی دیتا رہتا ہے، جس سے بعض اوقات جھگڑے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ماہی گیر زیادہ ہیں اور امداد کم ہوتی ہے۔‘
دوسری جانب گوادر پورٹ اتھارٹی حکام کے مطابق شہر میں ماہی گیروں کی بستیوں یا ان کے کاروبار سے متعلق منصوبوں میں ان کی رائے کو اہمیت دی جارہی ہے اور تحفظات کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
گوادر پورٹ اتھارٹی کے حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماہی گیروں کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور ایکسپریس وے کے حوالے سے بھی ان کی آرا کو منصوبے میں شامل کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق چونکہ گوادر پورٹ کے منصوبے ماہی گیروں کے کاروبار سے بھی منسلک ہیں، اس لیے ان کے نمائندوں سے ہفتہ وار اور ماہانہ بنیاد پر ملاقاتوں اور رائے جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔
گوادر پورٹ اتھارٹی حکام کے مطابق ایکسپریس وے گوادر پورٹ اور فری زون کو مکران کوسٹل ہائی وے سے منسک کرے گا۔
گوادر وہ واحد ساحلی مقام ہے، جہاں سارا سال مچھلی کا شکار کیا جاتا ہے (اے ایف پی)
ذرائع نے بتایا کہ دیمی زر ایکسپریس وے کے ڈیزائن میں ماہی گیروں کی تجاویز کی روشنی میں تبدیلی کی گئی ہے تاکہ ان کو سمندر میں آنے جانے میں آسانی ہو۔
ذرائع کے مطابق دیمی زر ایکسپریس وے سے سمندر کو جانے کے لیے اور کشتیاں کھڑی کرنے کے لیے راستے بنائے جائیں گے۔ اس سے ماہی گیری کی صنعت کی سہولیات میں اضافہ ہوگا۔
گوادر پورٹ اتھارٹی کے اعداد شمار کے مطابق ایکسپریس وے 19کلومیٹر ہائی اسپیڈ روڈ ہوگا جس کے ذریعے گوادر پورٹ کی ضروریات کے لیے بھاری ٹریفک کو چلانے میں مدد ملے گی۔ اس کی لاگت 12 اعشاریہ پانچ ارب روپے (92 اعشاریہ آٹھ ملین امریکی ڈالر) ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ماہی گیروں کے مطالبات کی روشنی میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بریک واٹر کا منصوبہ بھی بنایا ہے جس کے ذریعے کسی طوفان کے دوران پانی کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ماہی گیروں کی کشتیاں بھی محفوظ رہیں گی۔
گوکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان ترقیاتی منصوبوں سے ماہی گیروں اور ان کے پیشے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، تاہم ماہی گیر سمجھتے ہیں کہ بعض منصوبے ان کے آبائی پیشے کو ختم کرسکتے ہیں۔