ینٹاگون نے صدر ٹرمپ کے حکم پر شمالی شام سے امریکی افواج کا انخلا شروع کر دیا ہے۔ ایک امریکی عہدیدار کے مطابق ایک ہزار کے قریب امریکی فوجی جنگ کے شکار ملک سے نکال لیے جائیں گے جبکہ 150 فوجیوں پر مشتمل ایک چھوٹا دستہ جنوبی شام کے التنف بیس پر تعینات رہے گا۔
عہدیدار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم (امریکی صدر کے) حکم پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔‘
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان شام کے شمالی علاقوں میں ان کرد فورسز کے خلاف کارروائی کا حکم دے چکے ہیں جو داعش کو کچلنے کی پانچ سالہ لڑائی میں امریکہ کے اہم اتحادی رہ چکے ہیں۔
مبصرین کے مطابق صدر ٹرمپ کو، جن کے حکم سے شمالی شام سے امریکہ کے خصوصی دستوں کو پیچھے ہٹایا جا رہا ہے، اس حکم پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اتوار کو سیکرٹری دفاع مارک ایسپر نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے شمالی شام میں تعینات باقی مانندہ فوجیوں کو واپس بلانے کا حکم اس لیے دیا تھا تاکہ امریکہ دو اتحادیوں کے مابین پھنس جانے سے بچ جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارک ایسپر نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا امریکی فوجی جنوبی بیس پر واپس جائیں گے یا ان کو واپس امریکہ بھیجا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کے ناقدین نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کردوں کی زیر قیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز بے یار و مددگار چھوڑ رہے ہیں جن کے بارے میں انقرہ کا دعویٰ ہے کہ وہ ترکی کے اندر کرد باغیوں کی حمایت کرتے ہیں۔
پیر کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے شام پر جارحیت کے لیے ترکی کے خلاف ’بڑی پابندیوں‘ کا منصوبہ بنایا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس تنازع میں امریکی فوج کو گھسیٹنے پر کردوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ کرد فورسز نے امریکی فوج کو اس جنگ میں ملوث کرنے کے لیے اپنی جیلوں میں قید داعش جنگجوؤں کو رہا کرنے کی دھمکی دی ہے۔
’کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں‘ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا: ’کیا لوگ واقعی میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں نیٹو کے رکن ترکی کے خلاف جنگ کرنی چاہیے؟‘
’یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں مشرق وسطیٰ کے گند میں پھنسایا اور وہ اب بھی چاہتے ہیں کہ ہم وہاں الجھے رہیں۔‘