میں نے سوچا کہ وہ دن جا چکے جب میں جلتے ہوئے ٹائروں کو ٹھوکر مار کر سڑک سے ہٹاتا تھا۔ میں 1972 میں شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بلفاسٹ میں سڑکیں صاف کیا کرتا تھا۔
اس کے بعد یہی کام میں نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں کیا،لیکن میں کل وہاں تھا۔
میرے قابل اعتماد ڈرائیور سلیم نے مجھ سے ہاتھ ملانے کے لیے سب کے ساتھ انتظار کیا۔ ان کے ساتھ مقامی ملیشیا کے ایک رکن بھی تھے۔ سلیم مجھ سے وضاحت چاہتے تھے کہ میں لبنانی قصبے دامور(بیروت کے جنوب میں تقریباً 12 میل دور)کیوں جانا چاہتا ہوں۔
وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے سامنے اپنا چھوٹا سا لبنانی پریس کارڈ لہراؤں اور اپنے بھورے رنگ کے جوتے آہستگی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے جلتے ہوئے ٹائروں کو شاہراہ سے ہٹا دوں۔
ٹائر گرم تھے، شعلوں کوصرف دیکھنے سےہی مجھے آنکھوں میں تکلیف محسوس ہوئی۔
بلاشبہ جلتے ہوئے ٹائروں سے یہی کچھ ہوتا ہے۔ خرگوشوں کی طرح ہمارے پیچھے جمع ہونے والے ڈرائیور مڑے اور گھروں کو چلے گئے۔
بہرحال، ہم نے معاملات نمٹائے اور گاڑی چلتی گئی، چلتی گئی۔ میں ہنسا کہ ہم نے ایسا کیا ہے لیکن یہ بہت سنجیدہ معاملہ تھا۔ فوج دور کھڑی رہی، پولیس نے کارسواروں کو گھر جانے کا مشورہ دیا۔
امن وامان – آپ کو یہ پرانے الفاظ یاد ہوں گے؟جو راستہ استعمال کرنے کے قانونی حق کے مقابلے میں کم اہم تھے، لیکن کئی گھنٹے تک میں نے اور سلیم نے سفر کے لیے راستے کا اپنا ہی حق استعمال کیا۔
آگ لگانے کی یہ کارروائی زیادہ تر ’امل تحریک ‘سے تعلق رکھنے والے افراد کرتے ہیں۔ امل تحریک ایک شیعہ گروپ ہے، جنہیں لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر نبیہ بری کنٹرول کرتے ہیں۔ یا پھر مجھے ایسا ہی بتایا گیا تھا اور میں نے اس پر بحث نہیں کی۔
یہ صورت حال اپنی ہی کہانی بیان کر رہی تھی۔ بعض کہانیاں تو بہت کمزور تھیں۔ میں نے ان پر غور کیا اور میں واقعی انہیں ان کے اعمال کا الزام نہیں دیتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لبنان کبھی امیر ملک نہیں رہا، سوائے سنی تاجروں اور مسیحی بینکروں کے اور ان لوگوں کےپاس کھانے کے لیے کچھ زیادہ نہیں تھا۔ وہ کئی روز سے اپنی قسمت کا رونا رو رہے تھے۔
لبنانی پاؤنڈ کی قیمت میں بڑی کمی ہو چکی تھی اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں۔ ساری باتیں ٹھیک ہیں اس کا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اور انہوں نے احتجاج کیا۔
مجھے حیرت نہیں تھی اس کے باجود اس بارے میں کچھ نیا اور حیران کن تھا۔ اس تمام ہفتے لبنان کے تمام پہاڑ جل چکے ہیں۔ ان پر لگے صنوبر کے درختوں کی خوبصورتی اور پہاڑی علاقے آگ کے شعلوں کی نذر ہو گئے۔
آگ بجھانے والے تین سرکاری ہیلی کاپٹر بیروت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر کھڑے سڑ رہے ہیں۔ حکومت نے ان کی دیکھ بھال نہیں کی۔ اب ضرورت ہے کہ یونان،قبرص اور اردن اپنے طیارے بھیج کر پہاڑیوں پر لگی آگ بجھائیں۔
بیروت کے ساحل پر واقع میرا اپنا اپارٹمنٹ دھوئیں کی بدبو سے بھر گیا تھا۔ بدھ کی رات خدا لبنان آیا وہ اکثر یہاں آتا ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے اور ملک کو بارش اور طوفان میں ڈبو دیا ہے۔ جمعرات کی صبح میری بالکونی ریت اور راکھ سے بھری ہوئی تھی۔
لیکن یہاں کہیں زیادہ سنجیدہ نوعیت کا کچھ ہو رہا ہے۔ جسمانی طور پر لبنانی عوام کا غصہ صرف ملیشیا کی بھڑاس نہیں ۔
یہ اس لیے نہیں کہ عام لوگ بھوکے ہیں اور واقعی وہ ہیں، لیکن کیونکہ ایک غیرمنصفانہ نظام(پہلے سے کہیں زیادہ ٹیکس اور زیادہ قیمتوں)نے یہ ناممکن بنا دیا ہے کہ رقم اور خوراک گھر لائی جا سکے۔
مجھے ایک چھوٹا سا سوال کرنے دیں۔ سمندر کے رخ پر بنے علاقے کی پہاڑی سڑک کے قریب جہاں میں رہتا ہوں۔ ایونیو ڈی پیرس،فرانسیسی حکومت نے 1920 میں اسے یہی نام دیا تھا،وہاں تقریباً ہر اپارٹمنٹ بلاک خالی ہے۔ ماسوائے اس چھوٹے بلاک کے، جہاں میں رہتا ہوں۔
یہاں تاریکی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ آپ یہاں سے میلوں گاڑی چلا کر وسطی بیروت کے اندرونی علاقے تک جا سکتے ہیں، جہاں آپ کو روشنی دکھائی دے گی۔ یہ عمارتیں سرمایہ کاروں کی ہیں۔ زیادہ تر عراقی سرمائے کی لیکن شامی اور سعودی سرمایہ بھی ان کے مالک ہیں لیکن یہاں کوئی نہیں رہتا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں وادی بیکا کے غریب لوگ، شامی اور فلسطینی پناہ گزین(بلاشبہ جن کے بارے میں اب بات نہیں کرتے کیونکہ وہ اسرائیلی ریاست کا ملبہ ہیں)جھونپڑ پٹیوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ نقد رقم کے طاقتور سنتری فاتح کی طرح کھڑے ہیں: خالی،امیر اور شرمناک۔
اس لیے مجھے ڈر ہے کہ ہمیں سڑک پر جلتے ہوئے مزید ٹائر ملیں گے۔
© The Independent