ایک محترم نے گذشتہ روز سوال کیا، برطانوی شہزادی کے لباس پہ خواتین کیوں جل رہی ہیں؟ اس سوال کا جواب ذرا طویل ہے۔ لڑکیاں جل نہیں رہیں مردوں کو لگ رہا ہے جیسے کوئی حور زمین پہ اتر آئی ہے۔ جنت میں وہ بے لباس تھی، خاک پہ آ کر خاکی ہو گئی ہے۔ یہی کپڑے آپ اپنے ملک کی کسی عام بچی کو پہنا دیں وہ اس شہزادی سے زیادہ اچھی لگے گی۔
ہم ازل سے گوری کے غلام مرد ہیں۔ ہمیں تو جنت جانے کے لیے بھی حسین حوروں کا لالچ دیا گیا ہے اور ہمارے یہاں کے معیارات کے مطابق گوری عورت کسی حور جیسی ہے۔ آدھے سے زیادہ مرد سجدے میں جنت کی حور اور اس کی ساتھ حسن سلوک کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سجدے سے اٹھتے ہی سامنے اپنی ہی بیوی پہ نظر پڑتی ہے تو لاحول پڑھتے ہوئے پھر سجدے میں چلے جاتے ہیں۔
میرے پیارے پیارے نابینا اجنبی بھائیو۔ جس طرح تم اس گوری کے مکمل اور ساتر لباس کو دیکھ کر ہمارے یہاں کی عورت کو طعنہ دے رہے ہو بالکل اسی طرح تم نے کبھی عورت کو اس کی بے لباسی کی داد دی اور کبھی یہاں کی سانولی حسینہ کو گوری بننے پہ مجبور کیا تھا۔ وہ دن بھول گئے کیا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ گوری تمہیں اتنی اچھی لگ رہی ہے کہ ہر مرد بیٹھا اس وقت اس شہزادی کے قصے ایک دوسرے کو سنا رہا ہے، اس کے مکمل لباس پہ واری صدقے جا رہا ہے۔ واری صدقے جاؤ مگر یہ بھی تو دیکھو اس کے ساتھ کون ہے؟ وہ بھی گورا ہے، وہ ایک شہزادہ ہے، صاف ستھرا سا گورا! تمہاری طرح گندا مندا نہیں کہ جس کی شیروانی سے اس کا پیٹ اتنا باہر نکلا ہو کہ بٹن ٹوٹنے لگ جائیں۔ جس کی پینٹ اس کے جسمانی حسن کی وجہ سے پیچھے سے اوپر اور آگے سے نیچے کھسکی ہوئی ہو۔ جس کے بازو آدھے سانولے آدھے کالے ہوں۔ جس کے سر پہ بال نہ ہوں تو وہ اگلی لٹوں کو لمبا کر کے خشک میدان پہ بکھیر کر خود کو ’بال دار‘ دکھانا چاہتا ہو۔ وہ تو ایسا تھا کہ جس کی بیوی کی طرف اتنے سارے مرد نگاہ رشک سے اتاؤلے ہوئے دیکھ رہے تھے مگر اس مرد قلندر نے اف تک نہ کی۔
مترو تے سجنو، بات یہ ہے کہ یہ ملبوسات جو آپ کی پیاری شہزادی نے پہنے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی خالص شلوار قمیص یا آپ کا قومی لباس نہیں ہے۔
دوم، لباس کا کٹ مشرقی نہیں ہے۔ سوم آپ مرد طعنے بازی پہ اترے ہوئے ہیں حالانکہ گوری نہ ملے تو اپنی دیسی حسینہ کو فئیر اینڈ لولی لگا کر جینز پہنا کر خواب غفلت میں حور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ہاں صرف ایک دوپٹہ اضافی ہے جو اس لباس کو مشرقی رنگ دے رہا ہے۔
اگر یہاں کی عورت وہاں جا کر ان کا لباس پہنے تو آپ کی پاک نظروں میں بے حیا ہو جاتی ہے۔ بے حیائی کے ساتھ بد کرداری کا مصالحہ لازمی ہے ورنہ مزا پھیکا پڑ جاتا ہے۔
یہ بالکل یونہی ہے جیسے آپ گھر بیٹھ کر ملالہ کی تعلیم، عافیہ کی ذہانت اور مریم کے فائٹر پائلٹ ہونے پہ خوب داد دیں لیکن جب آپ کی بہن، بیٹی، بیوی پڑھ لکھ کر اس مقام عظیم کو چھونا چاہیں تو آپ کی غیرت کے جراثیم جاگ جائیں۔ ’نہیں یہ نہیں ہو سکتا‘ آپ کے اندر کا مشرقی مرد اندر ہی اندر چلانے لگے۔ ’عورت میرے جیسے مرد کے بغیر ادھوری ہے۔‘
ویسے سوچتے ہیں کہ آپ کی بہن، بیٹی یا بیوی آپ ہی کی طرح بیٹھ کر جگہ جگہ شہزادے کے حسین لباس، اس کے گورے گورے، نر م، سرخ و سفید جسم، لمبے قد، اس کی دولت ، سلجھے پن اور خصوصا اس کم بخت کی متین نظر پہ قصیدے پڑھنا شروع کر دے تو آپ کو کیسا لگے گا؟
نہیں مگر ایسا ہو گا نہیں۔ جس طرح آپ ذہنی غلام ہیں اسی طرح ہمارے یہاں کی عورت کو بھی آپ نے ذہنی غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔انہیں بھی ولایت سے آیا ہوا بالوں سے بھرا، کالے چولے میں لپٹا، توند نکلا، کھاتا پیتا، جنگجو شہزادہ بھلا لگتا ہے۔ یاد کریں وہ دن جب ایک مرد حسین اس پاک دھرتی پہ اترا تھا۔ یہاں کی لڑکیوں کا بھی یہی حال مست تھا جو آج آپ سب کا گوری شہزادی کو دیکھ کر ہو رہا ہے۔
چند دن بعد شہزادی تو دورہ پورا کر کے اپنے شہزادے کے ساتھ چلی جائے گی، آپ سب قبر تک آہیں بھر بھر کے سب کو بتاتے رہیں گے کہ اس نے کس پیار سے آپ کی طرف دیکھا تھا، بس درمیان میں شہزادہ آ گیا ورنہ آہو!
سب مردوں سے پر زور اپیل ہے اپنی ماؤں، بہنوں، بیویوں، بیٹیوں اور ان سب کو جنہیں یہ چاروں نہیں جانتیں، شہزادی جیسے کپڑے بنوا کر دیں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ ان پورے کپڑوں کی قیمت کیا ہے۔ یہ چند عشروں بعد پتہ چلے گا کہ شہزادی کے یہ کپڑے اس ملک کو کس قیمت میں پڑے ہیں۔