جب ہر کوئی یہ جاننے میں مصروف تھا کہ ٹک ٹاک سٹار حریم شاہ دفتر خارجہ کی عمارت میں داخل کیسے ہوئیں، ایک شخص خود کو اسسٹنٹ کمشنر ظاہر کر کے مردان سینٹرل جیل میں داخل ہو گیا۔
مردان سینٹرل جیل میں ہونے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک مرتبہ پہلے بھی محمد طفیل نامی یہ شخص خود کو اسسٹنٹ کمشنر ظاہر کر کے اسی جیل میں اپنا کام نکلوا چکا ہے۔
یہی نہیں وہ اپنے ساتھ دو مسلح گارڈز رکھوا کر جگہ جگہ دکانداروں پر پرچہ کاٹ کر ان سے جرمانے بھی وصول کیا کرتا تھا۔
سینٹرل جیل مردان کے سپرنٹنڈنٹ ریاض مہمند نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محمد طفیل کئی سالوں سے اس دھوکہ بازی میں مصروف تھا جس میں وہ اتنا ماہر ہو چکا تھا کہ پولیس سٹیشنز کو کال کروا کر ان سے بھی جھوٹ بولتا تھا۔
’یہ شخص پہلے بھی سینٹرل جیل مردان آچکا تھا لیکن اس وقت کا سپرنٹنڈنٹ کوئی اور تھا۔ جب سے میری تقرری ہوئی ہے میں نے ڈیوٹی ملاقاتوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ ایک بہت حساس جیل ہے۔ لہذا چند دن قبل جب میرے ایک اہلکار نے بتایا کہ اسسٹنٹ کمشنر صاحب آئے ہوئے ہیں تو میں چونک گیا کہ وہ ایسے کیسے تشریف لائے ہیں۔ میں نے فوراً انہیں اپنے دفتر بلا لیا۔‘
’طفیل نے داخل ہوتے ہی خود کو اے سی کے طور پر مخاطب کرتے ہوئے علیک سلیک کیا اور بیٹھ گئے۔ اس دوران میں نے ان سے پی ایم ایس کے حوالے سے کچھ بنیادی سوالات کیے۔‘
نامہ نگار انیلا خالد کے مطابق ریاض مہمند نے بتایا کہ اس جعلی افسر کی باڈی لینگویج سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ کون ہیں، لیکن وہ پھر بھی ان سے سوالات پوچھ کر انہیں بے نقاب کرنا چاہ رہے تھے۔
’میرے اس سوال پر کہ پی ایم ایس کب کیا تھا تو طفیل نے جواب دیا کہ 2015 میں۔ ان کا پہلا جواب ہی غلط تھا کیونکہ 2015 میں تو امتحانات ہوئے ہی نہیں تھے۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے آپشنل مضامین کیا تھے۔ تو وہ پہلے گڑ بڑا گیا لیکن پھر کہنے لگا کہ پروویژنل مینجمنٹ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اسسٹنٹ کمشنر صاحب، آپ ذرا مہمان خانے تشریف لے جاکر انتظار کریں۔ میں مصروف ہوں کچھ دیر بعد بات کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس دوران میں نےسپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو جانے نہ دیا جائے۔ میں نے فوراً مراسلہ تیار کیا اور شیخ ملتون تھانے بھجوا دیا اور اس کے بعد جعلی اے سی سے مخاطب ہوا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ وہ پھنس چکا ہے تو مزید جھوٹ بولتے ہوئے کہنے لگا کہ اس کو جانے دیا جائے کیونکہ ان کے والد سیکرٹری ہیں اور اسد قیصر ان کے رشتہ دار ہیں۔‘
سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ دراصل یہ شخص لوگوں سے پیسے لے کر انہیں اپنے قیدیوں سے ملاقات کروانے کی یقین دہانی کرواتا تھا۔ ساتھ ہی ان سے اپنی پسندیدہ گاڑی کی فرمائش کرتا جس میں اپنے گارڈز کے ساتھ بیٹھ کر جیل میں داخل ہوتا۔
’طفیل نے ایک جعلی سرکاری کارڈ بھی بنایا ہوا تھا۔ جب ان کو اندازہ ہوا کہ وہ پھنس چکے ہیں تو کارڈ کو چپکے سے لیٹرین کے روشندان میں رکھ دیا۔ جو کہ سپاہیوں نے ڈھونڈ نکالا۔‘
ریاض مہمند نے بتایا کہ جعلی اسسٹنٹ کمشنر کو انہوں نے فوراً حوالات بھجوا دیا ہے۔ لہذا بعض ٹی وی چینلز اور اخبارات کی یہ خبر درست نہیں کہ ان سے نالیاں صاف کروائی تھیں یا ان کی درگت بنائی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ محمد طفیل نامی اس شخص پر چھ دفعات 419، 420، 468، 471، 170، اور 171 لگائی گئی ہیں اور وہ اس وقت سینٹرل جیل مردان میں قید ہیں۔
دوسری جانب، شیخ ملتون تھانے کے مطابق، طفیل کے والد نثار محمد بتا چکے ہیں کہ ان کا بیٹا آئس نامی خطرناک نشے کا عادی ہے اور وہ انہیں کچھ ماہ پہلے 20 دن کے لیے ہسپتال میں بھی داخل کروا چکے ہیں۔