جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی - ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان 27 اکتوبر سے دارالحکومت اسلام آباد میں ’آزادی مارچ‘ کے لیے پَر تول رہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔
جہاں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی جے یو آئی کے مارچ کی حمایت کر رہی ہیں، وہیں جے یو آئی کی ڈنڈا بردار فورس (انصار اسلام) کی ’حربی‘ مشقوں پر مبنی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مارچ کتنا پُرامن ہو گا۔
اس تناظر میں جبکہ پاکستان کے سر پر ممکنہ پُرتشدد مظاہروں کے بادل منڈلا رہے ہیں، اکتوبر کے مہینے میں پوری دنیا میں مختلف مسائل اور معاملات پر احتجاج اور مظاہروں کی لہر جاری ہے۔
مشرق وسطیٰ میں عراق اور لبنان، ایشیا میں ہانگ کانگ اور افریقہ میں الجیریا احتجاج کی لپیٹ میں ہیں جبکہ لاطینی امریکہ کا خطہ بھی مظاہروں کی زد میں ہے۔ ان پُرتشدد مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
ادھر، بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں گذشتہ تین ماہ سے جاری لاک ڈاؤن اور سخت پابندیوں کے دوران بھی کشمیری عوام دہلی میں قوم پرست نریندر مودی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد خطے میں ہونے والے مظاہروں میں کئی افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔
معلومات تک رسائی اور مواصلاتی نظام پر پابندیوں کے باوجود پاکستان کے قومی اور انٹرنیشنل میڈیا نے ان مظاہروں اور ان میں ہونے والے جانی نقصان پر رپورٹنگ کی ہے۔
دنیا بھر میں اتنے وسیع پیمانے پر احتجاج کیوں؟
اس کا جواب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کی ترجمان روینہ شامداسانی دیتے ہوئے کہتی ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں عدم مساوات کا احساس اور معاشی مسائل سرفہرست ہیں۔
اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے نے دنیا بھر میں اٹھنے والی احتجاجی لہر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یو این ہیومن رائٹس کمیشن کے جمعے کو جاری ہونے والے بیان میں روینہ کا کہنا تھا ’ہم آج حالیہ احتجاجی لہر کے حوالے سے بات کر رہے ہیں جن میں بولیویا، چلی، ہانگ کانگ، ایکواڈور، مصر، گیانا، ہیٹی، عراق اور لبنان میں ہونے والے مظاہرے شامل ہیں اور یقیناً ہم نے اس سال کے اوائل میں الجیریا، ہونڈورس، نکاراگوا، مالاوی، روس، سوڈان اور زمبابوے کے علاوہ فرانس، سپین اور برطانیہ سمیت یورپی یونین کے متعدد ممالک میں بھی بڑے مظاہرے ہوتے ہوئے دیکھے اور یہ فہرست اب بھی مکمل نہیں۔‘
روینہ نے کہا: ’یقیناً ان مظاہروں کے پیچھے وجوہات پیچیدہ اور متنوع ہیں اور یہ ضروری ہے کہ ہم اس پر فوری نتائج اخذ نہ کریں۔ بہت سارے مظاہروں میں کچھ باتیں مشترکہ ہیں۔ عوام بہت سے مسائل سے خائف ہیں، خاص طور پر سماجی و معاشی حالات، بدعنوانی، عدم مساوات اور امیر اور غریب کے درمیان وسیع فرق کے باعث وہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کا مزید کہنا تھا عوام کے حکومتوں، سیاست دانوں، اشرافیہ اور اداروں پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد سے یہ جذبات مزید بھڑک گئے ہیں۔
روینہ نے کہا مظاہرین کے خلاف حکومت کے غلط ردعمل اور طاقت کے بے جا استعمال سے مظاہروں میں شدت آ گئی ہے۔ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مظاہرین کی ہلاکت اور اس دوران زخمی یا گرفتار ہونے والے افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مزید دسیوں ہزاروں افراد سڑکوں پر آ گئے ہیں۔
’حکومتیں کئی معاملات میں طاقت کے استعمال اور مظاہرین پر قابو پانے کے بین الاقوامی معیار کی پاسداری کرنے میں ناکام رہیں اور انہوں نے پُرامن مظاہروں، شہری آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی جیسے بنیادی انسانی حقوق میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں کیں۔‘
حالیہ مظاہروں کے دوران صرف عراق میں 40 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ چلی اور ہانگ کانگ میں بھی پُر تشدد واقعات میں کئی افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان میں بھی گذشتہ بدھ کو پولیس نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز (بی ای ایس سی) کے اساتذہ کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا تھا۔ بی ای ایس سی سے وابستہ اساتذہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کر رہے تھے۔
پاکستان کے دارالحکومت اکتوبر کے آخر میں ایک بڑے احتجاج کا سامنا ہو سکتا اور مقامی انتظامیہ نے اس سے نمٹنے کے لیے اہم سڑکوں پر ابھی سے کنٹینرز رکھ دیے ہیں۔
اس تناظر میں اکتوبر بلاشبہ عالمی سطح پر مظاہروں اور احتجاجی تحریکوں کے لیے یاد رکھا جائے گا۔