بسکٹی رنگ کا جوڑا اور کیسری ڈوپٹہ اوڑھے مشہور اداکارہ صبا حمید منگل کو سیشن کورٹ لاہور میں ایڈیشنل سیشن جج امجد علی شاہ کی عدالت میں پیش ہوئیں۔
وہ اپنی بیٹی اور مشہور گلوکارہ و اداکارہ میشا شفیع کے خلاف گلوکار علی ظفر کی جانب سے ایک سو کروڑ روپے کے ہتک عزت کے دعوے سے متعلق کیس کی سماعت میں بطور گواہ اپنا بیان ریکارڈ کروانے آئی تھیں۔
صبا پہلی بار اس کیس کے سلسلے میں عدالت آئیں تو ان کے ہمراہ ان کی دوست اور مشہور اداکارہ اور ماڈل عفت عمر بھی تھیں۔ آج سماعت میں میشا شفیع اور علی ظفر دونوں ہی موجود نہیں تھے۔
کیس کی سماعت مقررہ وقت کے ایک گھنٹے بعد شروع ہوئی۔ سماعت کے دوران جب صبا اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے کٹہرے میں آئیں تو وہ کچھ دیر کے لیے گھبرائی ہوئی لگیں، مگر اس کے بعد وہ پر اعتماد نظر آئیں۔ کچھ سوالوں پر محسوس ہوا کہ وہ جذباتی ہو گئیں مگر انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ وکیل کے سوالوں کے جوابات دیے۔
صبا حمید کے کچھ قریبی جاننے والوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صبا ہمیشہ سے اپنی ذاتی زندگی کو اپنے تک محدود رکھتی ہیں اور زیادہ تر اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرتیں اسی لیے عدالت میں پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروانا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔
عدالت میں موجود علی ظفر کے وکیل نے الزام لگایا کہ میشا کے وکلا گواہ کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ تاہم جج نے وکیل کو سوالات جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
وکیل نے صبا سے پوچھا کہ ’ان کی بیٹی علی ظفر کے ساتھ کام کیوں نہیں کرنا چاہتی تھیں؟‘
جس پر انہوں نے بتایا کہ ’علی نے میشا کو کئی مرتبہ جنسی طور پر ہراساں کیا، تیسری مرتبہ ہراساں کیا گیا تو میشا نے واضح طور پر کہا کہ وہ ان کے ساتھ آئندہ کام نہیں کریں گی۔‘
صبا نے کہا کہ میشا نے ٹویٹ کے ذریعے اپنی جنسی ہراسانی کا کیس رپورٹ کیا اور ٹویٹ کرنے سے 15، 20 دن سے پہلے میشا نے اس بارے میں انہیں بتایا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ میشا کی بات سن کر سکتے میں آگئی تھیں۔ ’میں نے انہیں اس بات کو عام کرنے کی رائے نہیں دی تھی بلکہ میں نے یہ فیصلہ میشا پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ جو مناسب سمجھیں کریں۔‘
صبا نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اپنی بیٹی پر مکمل یقین ہے اور یہ کہ انہوں نے میشا کو اس معاملے کو اٹھانے کے مثبت اور منفی نتائج دونوں کے بارے میں بتایا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب صبا سے پوچھا گیا کہ میشا نے ہراسانی کے فوری بعد انہیں کیوں نہیں بتایا؟ تو ان کا کہنا تھا: ’شاید میشا شرمندہ تھیں۔‘
صبا کا کہنا تھا: ’ایسے معاملات میں خواتین معاشرتی رویوں سے ڈر جاتی ہیں کیونکہ ہماری طرح کی خواتین کو ایسے معاملات میں مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ علی ظفر نے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی بہت سی خواتین کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا ہے جنہیں وہ ذاتی طور پر جانتی ہیں مگر وہ ان کا نام نہیں لے سکتیں کیونکہ اس طرح ان کی رازداری نہیں رہے گی۔
جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ وہ خواتین خود سامنے کیوں نہیں آرہیں؟ تو صبا کا کہنا تھا: ’ہماری انڈسٹری میں ہراساں ہونے والی خواتین جب ہراساں کرنے والے کا نام لیتی ہیں تو انہیں مشکل کھڑی کرنے والی خواتین کے نام سے پکارا جانے لگتا ہے اور اس کی قیمت وہ اپنا کام اور انڈسٹری چھوڑنے کی صورت میں ادا کرتی ہیں۔‘
اس موقع پر صبا نے اپنے ساتھ ہونے والے ہراسانی کے واقعات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ وہ سمجھ سکتی ہیں کہ ان کی بیٹی اتنے عرصے تک خاموش کیوں رہیں۔
علی ظفر کی وکیل عنبرین قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صبا نے خود عدالت میں اقرار کیا کہ انہوں نے میشا کو ٹویٹ کرنے کا مشورہ نہیں دیا تھا۔
اس کے علاوہ عنبرین کا کہنا تھا کہ وہ اس کیس پر ابھی کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتیں، تاہم اگلی سماعت میں جرح کے بعد وہ کچھ کہہ سکیں گی۔
سماعت کے بعد میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کے دعوے کی سماعت دو نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔