پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ کی کچہری میں پیشی پر آنے والی خاتون پر سات وکلا نے تشدد کیا، جس کی ویڈیو سوشل میدیا پر وائرل ہوگئی۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نوجوان خاتون امرت بی بی تشدد کے باعث چلا رہی ہیں، کسی نے خاتون کو بچانے کی کوشش نہیں کی جبکہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔
شکرگڑھ کے موضع شاہ پور بھنگو کی رہائشی امرت بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وسیم لطیف نامی وکیل کے سسرالیوں کے ساتھ ان کا گلی میں دروازہ لگانے پر مقدمہ چل رہا تھا۔ منگل کے روز عدالت میں پیشی کے بعد وسیم لطیف ایڈووکیٹ نے دیگر سات وکلا کے ہمراہ عدالت سے نکلتے ہی ان پر اور ان کے چچا زاد بھائی عبدالقیوم پر دھاوا بول دیا اور ان دونوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
امرت بی بی کے مطابق: ’وکلا نے دھکے دیئے، تھپڑ مارتے رہے اور کپڑے بھی پھاڑ ڈالے۔‘
متاثرہ خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ موقع پر پولیس اہلکار بھی موجود تھے لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی بلکہ تماشا دیکھتے رہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقدمہ درج ہونے کے باوجود پولیس وکلا کو گرفتار نہیں کر رہی جبکہ وکلا کی جانب سے ان کے خاندان پر صلح کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
پولیس کیا کہتی ہے؟
اس واقعے کے حوالے سے متعلقہ علاقے کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) ملک خلیل احمد کا کہنا ہے کہ فریقین کی درخواستیں موصول ہوگئی ہیں جبکہ تفتیش اور میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ قانون کے مطابق تفتیش کی بنیاد پر قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے جو ہوسکا، ضرور کریں گے۔
واضح رہے کچھ عرصہ قبل شیخوپورہ میں گاڑی غلط پارک کرنے سے منع کرنے پر احمد مختار نامی وکیل نے لیڈی کانسٹیبل فائزہ نواز کو تھپڑ مارا تھا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر مذکورہ وکیل کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور ہتھکڑی لگا کر اسی لیڈی کانسٹیبل کی تحویل میں ریمانڈ کے لیے عدالت پیش کیا گیا تھا۔
اس واقعے پر وکلا نے شدید ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے عدالتی بائیکاٹ کیا تھا۔
تاہم وکیل احمد مختار کا نام ایف آئی آر میں غلط درج ہونے پر انہیں فوری ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
اس فیصلے پر لیڈی کانسٹیبل نے دل برداشتہ ہوکر نوکری سے استعفیٰ دے دیا تھا اور ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ’جو پولیس وکلا کے دباؤ میں آکر اپنے محکمے کی ملازم کو انصاف دلوانے میں رکاوٹ بنی، وہ اس میں نوکری نہیں کرنا چاہتیں۔‘