دنیا کے 153 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 11 ہزار سائنس دانوں نے موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر انسانوں نے اپنا طزر زندگی تبدیل نہ کیا تو ’ناقابل بیان انسانی المیے‘ سے بچنا ممکن نہیں رہے گا۔
یہ خط موسمیاتی سائنس پر مبنی ہے جو 1979 میں جینیوا میں منعقدہ عالمی موسمیاتی کانفرنس میں پہلی بار متعارف کرایا کیا گیا تھا۔ اگرچہ متعدد عالمی ادارے کئی دہائیوں سے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں لیکن گرین ہاؤس گیس کا اخراج بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
اس تحریک کی قیادت کرنے والے اوریگون سٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ ماحولیات کے پروفیسر ولیم ریپل کا کہنا تھا: ’40 سال سے عالمی سطح پر جاری طویل مذاکرات کے باوجود ہم اپنے طرز زندگی میں کوئی بدلاؤ نہیں لا سکے جس سے ہم اس بحران پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔‘
’بائیو سائنس‘ میں شائع ہونے والے پروفیسر ولیم ریپل کے خط میں مزید لکھا ہے: ’موسمیاتی تغیر رونما ہو چکا ہے اور یہ سائنس دانوں کے اندازوں کے برعکس انتہائی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔‘
محققین کا کہنا ہے ہم پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم کسی بھی تباہ کن خطرے سے انسانیت کو واضح طور پر متنبہ کریں اور یہ صورتحال جتنی سنگین ہے، اُتنی ہی بتائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ واضح طور پر اور بغیر کسی شبہ کے کرہ ارض کو موسمیاتی تغیر کے حوالے سے ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
اگرچہ اس حوالے سے کچھ مثبت اشارے موجود ہیں، جیسے شرح پیدائش میں کمی اور قابل تجدید (ماحول دوست) توانائی کے استعمال میں اضافہ، مگر اس کے باوجود زیادہ امکان یہی ہے کہ انسان تیزی سے غلط سمت بڑھ رہے ہیں۔
غلط اقدامات میں گوشت کی بڑھتی ہوئی کھپت، زیادہ ہوائی سفر، جنگلات کو پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے کاٹنا اور عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ شامل ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے وہ چاہتے ہیں کہ عوام اس بحران کی شدت کو سمجھیں، اس پیش رفت کا درست اندازہ لگائیں اور آب و ہوا میں بدلاؤ کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ترجیحات طے کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے ایسا کرنے کے لیے انسانی معاشرے میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی اور خود کو قدرتی ماحولیاتی نظام کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔
اس خط میں چھ اہم مقاصد پر زور دیا گیا ہے جن میں فوسل ایندھن کی جگہ ری نیوایبل انرجی کا استعمال، میتھین اور ہائیڈروکاربن جیسے زہریلے کیمیکلز میں کمی، ماحولیاتی نظام کی بحالی اور حفاظت، کم گوشت کھانا، ایک ایسی معیشت تشکیل دینا جو کاربن سے پاک ہو اور آخر میں آبادی میں اضافے کو روکنا۔
پروفیسر ریپل نے کہا: ’زمین کی سطح کا درجہ حرارت، سمندری درجہ حرارت، انتہائی غیرمعمولی موسم اور اس پر اٹھنے والے اخراجات، سمندر کی سطح ، سمندری تیزابیت اور زمینی رقبہ، ان سب میں اضافہ ہورہا ہے۔‘
’برف تیزی سے ختم ہورہی ہے، کم از کم موسم گرما میں بحر منجمد شمالی کی سمندری برف، گرین لینڈ اور انٹارٹیکا میں برف کی پرتیں اور گلیشیئر کی موٹائی میں کمی کے رجحانات دیکھے جا رہے ہیں۔ موسم میں یہ تیز ترین تبدیلیاں عالمی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔‘
سڈنی یونیورسٹی سے وابستہ مصنف ڈاکٹر تھامس نیوسوم نے کہا کرہ ارض کی سطح کے درجہ حرارت کی پیمائش تو ضروری ہے ہی لیکن دیگر وسیع تر اشاروں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
’ان اشاروں میں شرح پیدائش، گوشت کی کھپت، جنگلوں کے رقبے میں کمی، توانائی کی کھپت، فوسل ایندھن پر سبسڈی اور انتہائی غیر معمولی موسم سے ہونے والے سالانہ معاشی نقصانات شامل ہیں۔ جب کہ حالات اتنے خراب ہیں تب بھی امید کی کرن روشن ہے۔ ہم آب و ہوا کے حوالے سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔‘
مصنفین کا کہنا ہے ابتر صورتحال کے باوجود امید کی گنجائش موجود ہے۔ ’ہمیں حالیہ اقدامات کی وجہ سے حوصلہ ملا ہے، حکومتی ادارے ماحولیاتی بچاؤ کے لیے ہنگامی صورتحال کے اعلانات کر رہے ہیں۔‘
’سکولوں کے بچے شاندار (شجرکاری جیسے) کام کر رہے ہیں۔ عدالتوں میں ماحولیات کے حوالے سے مقدمے زیر سماعت ہیں۔ نچلی سطح پر شہریوں کی تحریکوں میں حکومتوں سے تبدیلی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور بہت سے ممالک، ریاستیں، صوبے، شہر اور حتیٰ کہ کاروباری ادارے بھی ماحول بچانے کے لیے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
’اس طرح کے بروقت اقدامات سے سیارہ زمین، جو ہمارا واحد گھر ہے، پر زندگی کو قائم رکھنے کی ہماری امید بندھی ہوئی ہے۔‘
© The Independent