جاپان بھر کی کمپنیوں میں خواتین کے چشمہ لگانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ اس اقدام پر غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مختلف شعبوں میں اس پابندی کی مختلف وجوہات ہیں لیکن بعض چھوٹے تاجروں نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ خریدار دکانوں میں کام کرنے والی خواتین کو چشمے میں دیکھ کر’سرد مہری‘کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
دوسری جانب روایتی ریستورانوں کا مؤقف ہے کہ چشمہ جاپان کے پرانے فیشن کے ملبوسات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا جب کہ میک اپ کے شعبے کے آجر کہتے ہیں کہ ان کے گاہک ایسی خاتون کارکن کا میک اپ واضح طور پر نہیں دیکھ پائیں گے جنہوں نے چشمہ لگا رکھا ہو۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فضائی شعبے میں چشمہ لگانے پر پابندی کے پیچھے تحفظ کے مسائل ہیں۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ کارکنوں کے چشمہ لگانے پر پابندی کمپنیوں کے قواعد کے ذریعے لگائی جاتی ہے یا ثقافتی طور پر مستحکم معمولات کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے جاپان میں اُس وقت غم و غصہ دیکھنے میں آیا جب نیپون ٹی وی نے اُن کمپنیوں کے بارے میں ایک خبر نشر کی جو خواتین کارکنوں کو چشمے کی بجائے کونٹیکٹ لینس لگانے کے لیے کہتی ہیں۔
ٹوئٹر پر بدھ سے ’چشمے لگانے پر پابندی‘ کا ہیش ٹیگ تیزی سے ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ایک خاتون نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ انہیں اُس وقت کونٹیکٹ لینس لگانے پر مجبور کیا گیا جب ان کی ایک آنکھ میں انفیکشن تھا۔ لینس لگانے کی وجہ سے انہیں آنکھ میں درد اور بے آرامی کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جاپان میں بعض خواتین نے اپنے چشموں کی تصاویر ٹوئٹر پر پوسٹ کرکے کارکنوں کے چشمہ لگانے پر پابندی کی مذمت کی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’ویمن مارچ گلوبل‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اوما مشرا نیو بیری نے پابندی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’خواتین کے جسم پر پابندیوں اور پہننے اوڑھنے کے معاملے کو مردوں کی حاکمیت نافذ کرنے کے آلے کے طور پر مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ 2019 ہے اور اب تک خواتین اس لیے جدوجہد کر رہی ہیں کہ ہمیں ہماری اہمیت اور کام کے اعتبار سے دیکھا جائے۔‘
ناقدین نے کارکنوں کے چشمہ لگانے پر پابندی کا موازنہ جاپان میں بعض سکولوں میں نافذ ایسے سخت قواعد کے ساتھ کیا ہے جہاں ہلکے رنگ کے بالوں والے بچوں کو بالوں کو کالا کرنے کا کہا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے ساتھی طلبہ جیسے دکھائی دیں۔
جاپان میں حال ہی میں ایک اور معاملے پر بھی مخالفانہ ردعمل کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ بعض فرموں نے اپنی خاتون کارکنوں کو اونچی ایڑی والے جوتے پہننے کی ہدایت کی تھی۔ جس کے بعد 31 ہزار سے زائد افراد نے ایک پیٹیشن پر دستخط کیے جس میں اس پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جنسی حملے اور ہراسانی کے خلاف ’می ٹو‘ کے ہیش ٹیگ کی بازگشت کے طور پر ’کیوٹو‘ کا ہیش ٹیک سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ یہ ہیش ٹیگ جوتوں کے لیے جاپانی زبان کے لفظ’کیوٹسو‘ اور درد کے لیے ’کیوٹسواو‘کے لفظ کو ملا کر بنایا گیا ہے۔
جاپان جہاں جنسی ہراسانی کا مسئلہ موجود ہے، جی سیون ممالک میں صنفی مساوات میں سب سے نچلے درجے پر ہے۔
حال ہی میں ملازمت پیشہ ایک ہزار خواتین پر کیے گئے سروے میں سامنے آیا ہے کہ ان میں سے 43 فیصد کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا اور 60 فیصد سے زیادہ خواتین نے جنسی ہراسانی کی اطلاع متعلقہ ادارے کو نہیں دی۔
© The Independent