اگر آپ نے کبھی سروے آف پاکستان سے جاری ہونے والے سرکاری نقشے دیکھے ہوں تو ان میں آپ کو پاکستان کے نقشے میں دائیں جانب نیچے کی طرف ایک چوکھٹے کے اندر ریاست جوناگڑھ بھی دکھائی دیتی ہے۔
اس نقشے میں شمال کی جانب کشمیر بھی شامل ہے، لیکن اس کے ساتھ میں سرخ روشنائی سے وضاحت رقم ہے کہ ’جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا معاملہ متنازع ہے۔‘ لیکن جوناگڑھ کے ساتھ ایسی کوئی وضاحت درج نہیں ہے، اس نقشے کے مطابق یہ صاف صاف پاکستان کا حصہ ہے۔
کہانی یہ ہے کہ اس ریاست کو آج سے ٹھیک 72 سال پہلے یعنی نو نومبر 1947 کو کانگریس کے ’مردِ آہن‘ ولبھ بھائی پٹیل نے بھارت میں ضم بلکہ ہضم کر لیا تھا، اور اس کے بعد سے اس کے نزدیک یہ معاملہ داخل دفتر ہو چکا ہے، لیکن پاکستان اور اس ریاست کے نواب کے وارثوں کے مطابق یہ ریاست قانونی طور پر اب بھی پاکستان کا حصہ ہے۔
کیلنڈر کے صفحے پلٹ کر 72 سال پیچھے چلے جائیں تو اس وقت جہانگیر خان کے دادا ریاست جوناگڑھ کے فرماں روا تھے اور ان کا نام نواب سر مہابت خان خان جی سوم تھا۔ ان نواب صاحب کا جب بھی ذکر آتا ہے تو ان کے نرالے مشغلوں کا بھی چرچا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک کے بارے میں آپ بھی سن لیجیے۔ انہیں کتے پالنے کا بہت شوق تھا اور ان کے پاس آٹھ سو کتے تھے۔
یہاں تو بات سیدھی سادی ہے کہ نوابی شوق بھی کوئی چیز ہوتی ہے، لیکن آگے سنیے۔ ان آٹھ سو میں سے ہر کتے کا اپنا ذاتی کمرا اور اپنا ذاتی نوکر تھا۔ ہر کمرے بجلی تو تھی ہی، ساتھ میں ٹیلی فون کنکشن بھی مہیا کیا گیا تھا۔ یہ وہ سہولت تھی جو تمام ریاست میں نواب صاحب کے خاندان کے علاوہ کم ہی لوگوں کو میسر تھی۔
ان میں سے جب کوئی کتا کسی وجہ سے جہانِ فانی سے کوچ کر جاتا تو اس کا جنازہ شان سے اٹھتا اور اسے فل آرکسٹرا کے ماتمی آہنگ کے دوران سنگِ مرمر کے مزاروں میں دفنایا جاتا۔
یہ تو ہوا ماتم، اب خوشی کا حال بھی سن لیں۔ جب نواب صاحب کی روشن آرا کی شادی بوبی سے طے پائی تو خزانے کے منہ یوں کھلے کہ دیکھنے والوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔
اب آپ پوچھیں گے کہ روشن آرا صاحبہ کون تھیں اور ان کی شادی اتنی دھوم دھام سے کیوں ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نواب صاحب کی منظورِ نظر کتیا تھی۔ بلکہ اس موقعے پر لفظ ’کتیا‘ استعمال کرتے ہوئے کچھ عجیب سا لگتا ہے، اس لیے اگر آپ اجازت دیں تو اسے ’بیگم سگ‘ کہا جائے؟ جب کہ دولہا بوبی لیبراڈور نسل کے ’سگ میاں‘ تھے۔
اس عظیم الشان تقریب میں ہندوستان کے ہر راجے، مہاراجے اور نواب کو مدعو کیا گیا۔ حتیٰ کہ وائسرائے لارڈ ویول کو بھی دعوت نامہ ملا، لیکن انہیں شرکت کا موقع نہیں مل سکا کیوں کہ غالباً وہ اس وقت ایک اور چھوٹے سے معاملے، یعنی ہندوستان کی آزادی کے معاملے پر غور و فکر میں مشغول تھے۔
البتہ جنہیں اس قسم کی کوئی مصروفیت نہیں تھی ان کی تعداد ڈیڑھ لاکھ نکلی اور انہوں نے دھوم دھام سے سہ روزہ تقریبات میں شرکت کی۔ بارات کا جلوس عجیب شان رکھتا تھا۔ دلہن کی چاندی سے بنی ڈولی شاہی ہاتھی پر لاد کر دربار ہال سے دولہے کے گھر لے جائی گئی۔ سیروں سونے سے لدے دولہے میاں ہمراہ اطلس میں ملبوس ڈھائی سو کتے بطور باراتی شامل تھے جب کہ شاہی بینڈ فضا میں خوشی کے شادیانے بکھیر رہا تھا۔
اس تمام معاملے پر تین لاکھ روپے خرچ آیا جو آپ کے روپوں میں 50 کروڑ بنتے ہیں۔ انگلیوں پر معمولی حساب کیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت ریاست جوناگڑھ کی کل آبادی لگ بھگ ایک لاکھ خاندانوں پر مشتمل تھی۔ اگر یہی 50 کروڑ ان میں بانٹ دیے جاتے تو ان کے چولہے کم از کم ایک سال تک جلتے رہتے، لیکن پھر ہم ان نواب صاحب کا یہاں کاہے کو ذکر کرتے اور آپ کاہے کو پڑھتے؟ آخر تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ الگ تو کرنا پڑتا ہے!
لیکن ایسا نہیں ہے کہ نواب صاحب دوسرے معاملات سے بالکل عاری تھے۔ انہیں کتوں کے علاوہ ریاست میں موجود جنگلی حیات کا بڑا خیال تھا اور اس کے تحفظ کے لیےکیے جانے والے اقدامات کا نتیجہ ہے کہ آج جوناگڑھ وہ واحد علاقہ جہاں آج بھی جنگلی شیر پائے جاتےہیں۔ اس کے لیے علاوہ نواب صاحب نے جنگلوں کے تحفظ کا خاص اہتمام کیا اور درخت کاٹنے والوں کے کڑی سزائیں مقرر کیں۔ اس کے علاوہ ان کے تعمیر کردہ ولنگڈن ڈیم، مہابت خان فری کالج اور بہادر خان لائبریری ایسے ادارے ہیں جو آج بھی کام کر رہے ہیں۔
انگریزوں کے بیانات کے مطابق ریاست کا نظم و نسق بہت عمدہ تھا اور نواب امورِ ریاست میں گہری دلچسپی لیتے تھے اور رعایا ان سے بہت خوش تھی۔
بابی خاندان کی حکومت
ریاست جوناگڑھ کا رقبہ دس ہزار مربع کلومیٹر تھا اور اس میں ایک ہزار کے قریب دیہات و قصبات شامل تھے۔ 1941 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی آٹھ لاکھ 16 ہزار تھی، جس میں سے پانچ لاکھ 34 ہزار ہندو اور ایک لاکھ 27 ہزار مسلمان تھے۔ بحیرۂ عرب پر ریاست کی 16 بندرگاہیں موجود تھیں۔ جہاں سے صدیوں سے ہندوستان کے دوسرے علاقوں اور دوسرے ملکوں سے تجارت ہوتی تھی۔ اس وقت جوناگڑھ کا شمار ہندوستان کی نسبتا متمول ریاستوں میں ہوتا تھا۔ 1945 میں ریاست کا سرپلس 15 لاکھ روپے تھا جب کہ یہ برطانوی سرکار کو ہر سال 28364 روپے کی رقم بطور خراج ادا کرتی تھی۔
جوناگڑھ قدیم زمانے سے راجپوت ریاست تھی۔ پہلی بار 1472 میں اسے مسلمانوں نے فتح کیا جس کے بعد یہ اکبر کے دور میں مغلوں کے کنٹرول میں آ گئی۔ لیکن محمد شاہ رنگیلا صاحب کے دور میں جب مغل ہندوستان کے بخیے ادھڑنے لگے تو ایک پٹھان سپاہی شیر خان بابی نے مغل گورنر کو بھگا کر جوناگڑھ پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔ ہز ہائی نیس میجر سر مہابت خان جی سوم کا تعلق بابی خاندان سے تھا جو سات نسلوں سے اس ریاست پر حکمران چلا آ رہا تھا۔
اگر آپ کے ذہن میں سوال اٹھا ہو کہ بابی خاندان کون سا خاندان ہے تو اس کا جواب ہے کہ یہ پٹھانوں کی ایک ذات ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مغل شہنشاہ ہمایوں کے زمانے میں ہندوستان آ بسی تھی۔ آپ نے شاید 70 اور 80 کی دہائی میں شہرت پانے والی گلیمرس ہیروئن پروین بابی کا نام سنا ہو۔ ان کی فلموں میں امر اکبر انتھونی، کالا پتھر، شان، کرانتی اور نمک حلال شامل ہیں جو سرحد کے دونوں طرف شوق سے دیکھی گئیں۔
تقسیمِ ہندوستان کے وقت مہابت خان بابی ریاست کے نواب تھے۔ انہوں نے اجمیر کے میو کالج سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہ 1920 میں ریاست کے تخت پر براجمان ہوئے تھے۔ ان کے انگریزوں سے خوش گوار تعلقات تھے، اور انہیں ہندوستان آمد پر 13 توپوں کی سلامی پیش کی جاتی تھی۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں نائٹ ہڈ، سٹار آف انڈیا اور نائٹ گرینڈ کمانڈر آف دی انڈین ایمپائر کے علاوہ برطانوی فوج کی میجر کا عہدہ بھی شامل ہے۔ باقی عہدوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن ایک ریاست کے راجہ نے فوج کا ایک معمولی عہدہ لینا کیوں پسند کیا، یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے۔ بننا ہی تھا تو جنرل نہ سہی، بریگیڈیر کا عہدہ ہی مانگ لیتے۔ آخر خود جوناگڑھ کی فوج نہ سہی، لیکن پولیس ہزاروں اہلکاروں پر مشتمل تھی۔
کاٹھیاواڑ کے تمام علاقے میں واحد جوناگڑھ ایسی ریاست تھی جس کا نواب مسلمان تھا اس لیے وہ اکثر ہندوستان کے ہندو پریس کا نشانہ بنتے رہتے تھے۔ بعض اوقات یہ پریس رائی کا پہاڑ بنا کر کسی عام سے واقعے کو مہینوں ہوا دیتا رہتا تھا۔
وزیرِ اعظم سر شاہنواز
اسی دوران ہندوستان سے انگریزوں کی رخصت کی گھڑی آن پہنچی جس کے دوران ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی ساڑھے پانچ سو ریاستوں کو فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ بھارت کا حصہ بنیں گی یا پاکستان کا۔ آزادی ہند ایکٹ کی رو سے نوابوں کو اختیار حاصل تھا کہ وہ دونوں میں کسی ایک ملک سے الحاق کر سکتے ہیں۔ 13 اگست کو جوناگڑھ کے ہندوؤں کا ایک وفد نواب سے ملا اور اسے اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے زور دیا کہ وہ بھارت سے الحاق کریں کیوں کہ ایک تو ریاست کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں، دوسرے یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ ہندوؤں پر مشتمل ہے اور تیسرے ریاست کے معاشی معاملات بھارت سے منسلک ہیں۔
اس موقعے پر ریاست کے دیوان (وزیرِ اعظم کے برابر عہدہ) شاہنواز نے وفد کو یاد دلایا کہ ایک زمانے میں کاٹھیاواڑ کا علاقہ، جوناگڑھ جس کا حصہ ہے، سندھ کا صوبہ تھا اور یہ کہ دونوں کے درمیان زمینی نہ سہی، سمندری اور فضائی رابطے تو موجود ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو ریاستیں اب تک بھارت سے الحاق کر چکی ہیں، ان کے نواب اب پچھتا رہے ہیں۔ ان تمام نکتوں میں عقل مندوں کے لیے اشارے موجود تھے کہ جوناگڑھ کو بھارت کی بجائے پاکستان سے الحاق کرنا چاہیے۔
آپ سوچیں گے کہ یہ شاہنواز کون تھے؟ یہ دراصل سر شاہنواز بھٹو تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے والد اور بےنظیر بھٹو کے دادا تھے۔ شاہنواز بھٹو سیاست میں خاصے فعال تھے۔ وہ بمبئی لیجسلیٹو کونسل کے رکن تھے اور انہوں نے 1930 میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی تھی، حالانکہ اس کانفرنس میں علامہ اقبال مدعو نہیں تھے۔
شاہنواز بھٹو سندھ کے بہت بڑے جاگیردار تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک چھوٹی سی ریاست میں ملازمت کیوں اختیار کی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اصل میں سر شاہنواز بھٹو قائد اعظم کے ساتھی تھے اور انہیں چند سال پہلے قائد اعظم نے اپنا سفیر بنا کر نواب آف جوناگڑھ کے پاس بھیجا گیا تھا تاکہ وہ نواب کو پاکستان سے الحاق پر مائل کریں۔ قائداعظم جوناگڑھ میں اس لیے دلچسپی رکھتے تھے کہ ان کا تعلق کاٹھیاواڑ کے علاقے سے تھا اور ان کے والد جوناگڑھ سے ملحقہ ریاست گوندل میں پیدا ہوئے تھے۔لیکن ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ صرف جناح ہی نہیں، مہاتما گاندھی اور ولبھ بھائی پٹیل کا تعلق بھی کاٹھیاواڑ سے تھا۔
سر شاہنواز بھٹو سے پہلے ریاست کے دیوان خان بہادر عبدالقادر تھے جو بھارت سے الحاق چاہتے تھے،
لیکن مئی 47 میں وہ ’علاج کی غرص سے‘ لندن چلے گئے اور ان کی جگہ سر شاہنواز دیوان مقرر ہو گئے۔ ان کی کوششیں رنگ لائیں اور جوناگڑھ نے عین آزادی کے دن یعنی 15 اگست کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔
’رعایا سے مشورہ ضروری نہیں‘
اس پر نئی دہلی میں کھلبلی مچ گئی۔ بھارت نے پاکستان سے شدید احتجاج کیا اور نہرو حکومت اور لیاقت علی خان کے درمیان تند و تیز تاروں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ کاٹھیاواڑ کی دوسری ریاستوں نے بھی نواب صاحب سے اپنا فیصلہ واپس لینے کو کہا، جس کی بنیاد وہی پرانی تھی کہ آپ کی سرحدیں پاکستان سے نہیں بلکہ بھارت سے ملتی ہیں۔ نواب صاحب کا جواب سیدھا اور ستھرا تھا۔ وہ مہاراجہ دھرنگ درہ کو لکھا:
’آزادیِ ہندایکٹ میں کسی ریاست کے حکمران کے لیے الحاق کا فیصلہ کرنے کے لیے رعایا سے مشورہ کرنا ضروری قرار نہیں دیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ ہم جغرافیائی قربت کے معابلے کو غیر ضروری اہمیت دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود ریاست جوناگڑھ کئی بندرگاہوں کے ذریعے پاکستان سے منسلک رہ سکتی ہے۔‘
پاکستان نے ابھی تک جوناگڑھ سے الحاق کی پیشکش قبول نہیں کی تھی کہ 17 ستمبر کو ماؤنٹ بیٹن، نہرو، سردار پٹیل اور وی پی مینن کی ملاقات ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ بھارتی فوجی جوناگڑھ کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیں، تاکہ نواب پر فیصلہ تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
وی پی مینن نے خود جوناگڑھ کا دورہ بھی کیا لیکن سر شاہنواز نے انہیں نواب سے ملنے نہیں دیا، جس پر وی پی مینن سنگین نتائج کی دھمکی دے کر چلے آئے کہ یہ اگر عوام کے جذبات سے کھیل جاری رکھا گیا تو اس کا مطلب نواب کی نوابی کا خاتمہ ہو گا۔
قائد اعظم نے جوناگڑھ کے علاوہ کئی دوسری ایسی ریاستوں کے حکمرانوں کو بھی پاکستان سے الحاق کی دعوت دی تھی جن کے حکمران مسلمان تھے، جن میں بھوپال اور اندور بھی شامل تھے۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن، سردار پٹیل اور وی پی مینن نے جہاں رشوت، لالچ نہ چلے وہاں بازو مروڑ کر 15 اگست سے پہلے پہلے تقریباً تمام ریاستوں کا بھارت سے الحاق کروا لیا تھا، صرف جوناگڑھ، کشمیر، اور حیدرآباد کا معاملہ ابھی تک کھٹائی میں تھا۔
لیکن قائداعظم نے سر شاہنواز کو یقین دہانی کروا دی تھی کہ وہ بھارتی دھمکیوں میں نہ آئیں۔ ’ویراول (جوناگڑھ کی مرکزی بندرگاہ) پاکستان سے دور نہیں ہے اور پاکستان (بھارت کو) جوناگڑھ پر ہلہ بول کر اسے دھمکانے کی اجازت نہیں دے گا۔‘ لیکن ظاہر ہے پاکستان کسی لحاظ سے اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ زبانی احتجاج سے بڑھ کر جوناگڑھ کی مدد کو آ سکتا۔
اس دوران ریاست کے اندر بھی شورش شروع ہو گئی اور لوگ کھلم کھلا بغاوت کی باتیں کرنے لگے تھے۔ سردار پٹیل جوناگڑھ میں ہندوستانی فوج بھیجنا چاہتے تھے لیکن ماؤنٹ بیٹن نے دلیل کی کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان عالمی برادری میں خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرے گا کہ دیکھو، طاقتور ہمسایہ کمزور کو دادا گیری کے ذریعے دبانا چاہتا ہے۔ پٹیل کا جواب تھا، ’جو ملک اپنی قومی حیثیت کھو دے، اسی بین الاقوامی حیثیت کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔‘
لیکن جوناگڑھ پر فوج کشی کیسے کی جائے، یہ معاملہ ٹیڑھی کھیر تھا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں بری، فضائیہ اور بحری فوج کے سربراہ انگریز تھے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف لڑنا نہیں چاہتے تھے اس لیے جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے ذریعے جوناگڑھ کے خلاف فوجی آپریشن زیرِ غور ہے تو انہوں نے ایک خط لکھ کر بھارتی حکومت کو مطلع کر دیا کہ انہیں معاف رکھا جائے کیوں کہ قدم پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہو گا اور وہ پاکستان سے لڑنا نہیں چاہتے۔
بھارت کے ’نان سٹیٹ ایکٹرز‘
سردار پٹیل بھی گجراتی تھے۔ انہوں نے جوناگڑھ کے معاملے کو انا کا مسئلہ بنا لیا۔ ان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’نان سٹیٹ ایکٹرز‘ کی راہ اپنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے جوناگڑھ کی ’غائبانہ حکومت‘ تشکیل دے دی گئی جو ریاست سے باہر رہنے والوں پر مشتمل تھی اور اس کے سربراہ گاندھی کے بھتیجے سامل داس گاندھی تھے۔ جوناگڑھ ریاست کی سرحد سے قریب قصبے راج کوٹ میں ایک خصوصی ریل گاڑی بھیجی گئی جس کا مقصد خود ماؤنٹ بیٹن کی زبانی یہ تھا کہ اسلحہ، رضاکاروں اور رقم کی کمی نہ رہے۔
یہی نہیں، بلکہ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل میسروی نے اپنے بھارتی ہم منصب کو یکم اکتوبر کو ایک خفیہ تار میں لکھامیں کہ بھارتی بحریہ کے اسلحے سے لدے جہاز، جن سے انگریز افسروں کو اتار دیا گیا ہے، جوناگڑھ کے ساحل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بھارتی فضائیہ کے جنگی جہاز قریبی ریاست نوانگر میں پہنچا دیے گئے ہیں۔ ’میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس پاگل پن کو روکیں۔‘
ساتھ ہی ساتھ قبائلی آپریشن بھی جاری تھا۔ ان قبائلیوں کا ایک جتھا راج کوٹ میں واقع نواب جوناگڑھ کے محل کی دیواریں پھلانگ کر داخل ہو گیا اور دو درجن نوکروں کو گرفتار کر کے محل کی چھت پر بھارتی پرچم لہرا دیا۔
قبائلی بھیجنے کی ابتدا بھارت نے کی
یہی حکمتِ عملی پاکستان نے بعد میں کشمیر میں استعمال کی۔ گویا قبائلی بھیج کر کسی ایسی ریاست پر قبضہ کرنے کی کوشش جس نے راجہ نے دوسرے ملک الحاق کر لیا ہو، اس پالیسی کی ابتدا پاکستان نے نہیں، بھارت نے کی تھی۔
اس دوران سارے ہندوستان میں آگ لگی ہوئی تھی اور جگہ جگہ مذہبی فساد برپا تھے۔ مسلمان ہندوؤں کے گلے کاٹ رہے تھے، ہندو اور سکھ مل کر مسلمانوں کی جڑیں اکھاڑ رہے تھے۔ صدیوں سے قائم بھائی چارہ راتوں رات بھسم ہو گیا تھا۔ دونوں طرف سے کٹی ہوئی ریل گاڑیاں پہنچ رہی تھیں، اور جس جس منزل پر پہنچتی تھیں، وہاں آگ لگ جاتی تھی۔ جوناگڑھ کے مکینوں تک یہ خبریں پہنچ رہی تھیں جن کی وجہ سے ریاست بھر میں زبردست خوف کا ماحول طاری ہو گیا۔ کیا ہندو کیا مسلمان، سب گھروں میں کنڈیاں لگا کر بیٹھ گئے۔ ہمسایہ ہمسایے کے سائے سے ڈرنے لگا۔ بہت سے لوگوں نے اپنے بیوی بچوں کو قریبی ریاستوں میں بھجوا دیا۔ انہیں ڈر تھا کہ بقیہ ہندوستان میں جو مذہبی فساد برپا ہے، اس کے شعلے کہیں جوناگڑھ کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔
اسی دوران لیاقت علی خان نے بھارت کا دورہ کیا اور ماؤنٹ بیٹن کی موجودگی میں الزام لگایا کہ بھارت فوجی طاقت استعمال کر کے جوناگڑھ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ طے پایا کہ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ ریاست میں ریفرینڈم منعقد کروایا جائے۔ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو پھر یہی پالیسی دوسری ریاستوں کے لیے بھی استعمال ہو۔
نہرو کی اداسی، لیاقت علی خان کی چمک
ماؤنٹ بیٹن نے بعد میں لکھا کہ ’یہ سن کر نہرو نے اداسی سے سر جھکا لیا اور لیاقت کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں وزرائے اعظم کے ذہن میں ایک ہی لفظ آیا تھا، کشمیر!‘
ادھر دہلی میں یہ معاملات چل رہے تھے، وہاں جوناگڑھ کی سرحدوں پر سامل داس کی جلاوطن حکومت نے پیش قدمی جاری رکھی۔ ’رضاکاروں‘ نے اکتوبر کے آخری ہفتے میں بھاری بھارتی اسلحے کی مدد سے جوناگڑھ کے 16 دیہات پر قبضہ جما لیا۔
یکم نومبر کو بھارتی فوج چپکے سے مانگرول اور باربری واڈ کی چھوٹی ریاستوں میں داخل ہو گئیں جو جوناگڑھ کی باج گزار تھیں۔
نواب نے اپنے گرد حلقہ تنگ ہوتے دیکھا تو اسی میں عافیت سمجھی کہ ریاست سے جلاوطنی اختیار کر لی جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کتے، بیویاں اور شاہی خزانہ ایک ڈکوٹا طیارے میں لادا اور کراچی چلے آئے۔
شاہنواز بھٹو اکیلے رہ گئے۔ عوام میں اشتعال، سرحدیں بھارتی فوجیوں سے گھری ہوئی، انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ سامل داس گاندھی کے باغیوں کو ریاست میں داخل ہو کر لوٹ مار مچانے سے بہتر یہی ہے کہ بھارت سے الحاق کر لیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے دہلی تار بھیجا، جسے سردار پٹیل نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یوں نو نومبر کو جوناگڑھ بھارت میں شامل ہو گیا۔
جوناگڑھ کو لگا چُونا
جب بھی تاریخی ستم ظریفیوں کی داستان رقم ہو گی، اس کے صفحوں پر یہ عبارت نہ جانے کس رنگ کی روشنائی سے لکھی جائے گی کہ جس شخص کو قائداعظم نے خاص طور پر اس مشن پر بھیجا تھا کہ وہ جوناگڑھ کا پاکستان سے الحاق یقینی بنائے، اسی کے دستخطوں سے جوناگڑھ کے بھارت سے الحاق کی درخواست رقم ہوئی۔ لیکن سر شاہنواز کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ بظاہر انہوں نے جوناگڑھ پر منڈلاتے موت کے سائے دیکھ کر عوامی مفاد میں بہتر اقدام کیا۔
پاکستان یہ معاملہ اقوامِ متحدہ میں لے گیا۔ سر ظفر اللہ نے دھواں دھار تقریر کی جس میں بتایا کہ بھارت کی فوج کشی قعطاً غیر قانونی ہے۔ اس کا جواب بھارت نے جوناگڑھ میں اپنی نگرانی میں ریفرینڈم کروا کر دیا جس میں بھارت کے حصے میں 222184 اور پاکستان کے حصے میں 130 ووٹ آئے۔ تھانے دار بھی خود، وکیل بھی خود، جج بھی خود۔ کھیل ختم پیسہ ہضم۔
عین اسی دوران کشمیر میں بڑے پیمانے پر جوناگڑھ جوناگڑھ کھیلا جا رہا تھا، سکرپٹ وہی تھا، کہانی وہی، ڈراپ سین بھی وہی، بس اداکاروں کے کردار الٹ ہو گئے تھے۔ ہندو راجہ، مسلمان اکثریت، نان سٹیٹ ایکٹر، فوج اتارنے کا معاملہ۔ اس تمام ہنگامے میں جوناگڑھ پر کون توجہ دیتا؟
تاہم دو کرداردوں نے آج تک یہ فیصلہ قبول نہیں کیا۔ ایک تو سروے آف پاکستان کے نقشہ ساز اور دوسرے جوناگڑھ کے نواب اور ان کا خاندان۔
معلوم نہیں آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی یا نہیں، مجھے تو ہوئی کہ جوناگڑھ کے نوابوں کا حکمران سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس وقت اس ریاست کے جلاوطن حکمران ہز ہائی نیس نواب صاحب محمد جہانگیر خان جی دلاور خان ہیں، جو مہابت خان جی سوم کے پوتے اور بابی خاندان کے 11 ویں نواب ہیں۔ وہ جوناگڑھ کبھی نہیں گئے اور اس وقت کراچی میں مقیم ہیں۔ نہ صرف مقیم ہیں بلکہ آج نو نومبر 2019 کو انہوں نے جوناگڑھ کے معاملے پر احتجاج بھی کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آزادی ایکٹ کے مطابق ریاست کے نوابوں کو حق دیا گیا تھا کہ وہ جس سے مرضی الحاق کر لیں۔ جوناگڑھ نے پاکستان نے الحاق کر لیا جس کے بعد وہ قانون کی رو سے پاکستان کا حصہ بن گیا اور آج بھی ہے اور وہ اپنے خاندان کی وراثت کی رو سے آج بھی جوناگڑھ کے جائز اور قانونی نواب ہیں۔
اس تمام واقعے کی قانونی حیثیت جو بھی رہی ہو، لیکن اس کا کوئی مثبت پہلو نکل سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ جوناگڑھ مجموعی طور پر پرامن رہا۔ کچھ گھروں کو آگ لگائی گئی، تشدد کے کچھ واقعات رپورٹ ہوئے، دکانیں لوٹی گئیں، بلکہ ایسے قصے بھی سننے کو ملے کہ ہندو مسلمانوں کی دکان سے چیزیں خریدتے تھے اور یہ کہہ کر پیسے دیے بغیر چلے جاتے تھے کہ ’یہ جناح کے کھاتے میں لکھ دینا۔‘ لیکن یہاں اس بڑے پیمانے پر خون خرابہ نہیں ہوا جو ان دنوں پنجاب میں ہو رہا تھا یا ایک سال بعد حیدر آباد دکن میں دیکھنے میں آیا۔
یہی امن اور شانتی آج کے جوناگڑھ میں بھی قائم ہے اور وہاں مسلمان اور ہندو ہمیشہ کی طرح مل جل کر رہتے ہیں اور اگر گنگا جمنی تہذیب کوئی شے ہے تو اس کا نمونہ جوناگڑھ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بلکہ وہاں کے ہندو باسی آج بھی نواب کا ذکر احترام سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں شاہنواز بھٹو نے ورغلا دیا تھا ورنہ وہ تو بھارت سے الحاق کرنا چاہتے تھے۔
نواب کے محلات اور سر شاہنواز بھٹو کا بنگلہ اب عجائب گھر بنا دیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ ہزاروں سال قدیم بودھ غار، سنسکرت کے آثار، جنگلات میں گھومتے شیر اور خوبصورت ساحلی مقامات دیکھنے کے لیے ہر سال لاکھوں لوگ جوناگڑھ کا رخ کرتے ہیں جن میں سے کم ہی جانتے ہوں گے کہ وہ جہاں گھوم پھر رہے ہیں، وہاں آج سے ستر بہتر سال پہلے تاریخ نے کیا کیا پینترے بدلے تھے۔