پچھلے کچھ دنوں فیس بک اور ٹوئٹر پر’سیو کارونجھر‘ یعنی کارنجھر بچاؤ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے، جس میں سوشل میڈیا صارفین سندھ کے صحرائے تھر کے علاقے نگرپارکر میں کارونجھر پہاڑی سلسلے سے بے دریغ رنگ برنگے گرینٹ پتھر نکالنے پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس پہاڑی سلسلے کو بچایا جائے اور مائننگ پر پابندی عائد کی جائے۔
ٹویٹر صارف مینا گبینا نے اپنی پوسٹ میں لکھا نگر پارکر شہر کو پانی دینے والے چھوٹے ڈیم اور ندی نالوں کو بارش کے بعد کارنجھر پہاڑی سے پانی سپلائی ہوتا ہے۔
’نگرپارکر شہر پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے اور گرینٹ کے لیے اس پہاڑی سلسلے کو نقصان پہچانا غیر انسانی اور ایک جرم ہے۔ اس کا نوٹس لے کر گرینٹ نکالنے کو بند کرکے کارونجھر کو بچایا جائے۔‘
مقامی لوگوں کے مطابق 23 کلومیٹر علاقے میں پھیلا کارونجھر پہاڑی سلسلہ سندھ کے دیگر خطوں کی نسبت جنگلی حیات کی کئی اقسام، جڑی بوٹیوں اور پودوں کی اقسام کے لحاظ سے مالامال ہے اور ممکنہ طور پر اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے سابق افسر لجپت شرما کے مطابق یہ پہاڑی سلسلہ نہ صرف مویشیوں کے چرنے کے لیے چراگاہ کا کام دیتا ہے بلکہ یہاں کئی اقسام کی جنگلی حیات بشمول مور، نیل گائے، نیولے، ہرن، تیتر، خرگوش، لومڑی، گیدڑ اور کئی اقسام کے سانپوں کے علاوہ موسم سرما میں ٹھنڈے ممالک سے آنے والے مہمان پرندے بشمول ماہی خور آبی پرندے، بطخیں، باز، تلور بھی یہاں کے قدرتی تالابوں میں اترتے ہیں۔
کارونجھر پہاڑی سلسلہ پاکستان بھر سے ختم ہوتے جا رہے گِدھوں کے انڈے دینے کی بھی جگہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا ’اگر سروے کیا جائے تو پاکستان میں اس جیسی کوئی اور جگہ نہیں جہاں ممالیہ، رینگنے والے جانور، پرندے، مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں، پودے اور درخت ایک ہی جگہ پائے جاتے ہوں۔ کارونجھر کوایک مکمل نیشنل پارک بنایا جاسکتا ہے۔‘
کارونجھر مقدس مذہبی آستانوں کا بھی گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہاں اسلام، ہندومت اور جین مت مذاہب کے مقدس آستانے ہیں جن میں قدیمی بھوڈیسر تالاب سے متصل 700 سال پرانی مسجد اور تھوڑے فاصلے پر ایک قدیم جین مت کا مندر ہے۔
اس کے علاوہ ہندو مت کے مقدس ترین قدیمی مندر ساڑدھڑو دھام، انچل ایشور یعنی ایشور کا آنچل، تروٹ جو تھلو، پرانہ آدھی گام، گئو مکھی جیسے آستانے بھی کارونجھر پہاڑی میں واقعے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پہاڑی سلسلے میں کئی بارانی ندیاں بشمول بھٹیانی ندی، راناسر ندی، گوردھڑو ندی، جھنجھو ندی بھی موجود ہیں۔
سندھی زبان کے مشہور شاعر شیخ ایاز نے صحرائے تھر کو فطرت کا عجائب گھر قرار دیا تھا جبکہ سندھی زبان کی شاعری میں کارونجھر پہاڑی کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا۔
اس کےعلاوہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے روپلو کولہی کا تعلق بھی کارونجھر سے تھا،جنھیں ان کے ساتھیوں کے ساتھ بغاوت کا مقدمہ چلا کر 22 اگست 1858 کو پھانسی دے دی گئی۔
کارونجھر اس لیے بھی اہم ہےکہ یہاں پہاڑ، رن کچھ اور ریت والے تھر کا سنگم ہوتا ہے۔
کارونجھر لال رنگ کے گرینٹ پتھروں پر مشتمل پہاڑی سلسلہ ہے، جو ویسے تو لال نظر آتا ہے مگر مقامی لوگوں کے مطابق یہاں سفید اور کالے پتھر کے علاوہ پانچ رنگوں کے پتھر ہیں۔
یہ رنگ برنگے گرینٹ کے پتھر کمروں کی ٹائلز اور عمارت سازی میں کام آتے ہیں، یہاں سے نکلنے والا پتھر پاکستان کے دیگر علاقوں سے نکلنے والے گرینٹ پتھروں سے قیمتی سمجھا جاتا ہے۔
کارونجھر سے غیر قانونی پتھر نکالنے کے خالاف نگر پارکر میں شہریوں نے احتجاج بھی کیا۔پچھلے چند سالوں سے جاری قحط سالی کے بعد سندھ حکومت نے 30 سے زائد چھوٹے بڑے ڈیم تھر میں تعمیر کروائے مگر پتھروں کی بے دریغ کٹائی کے بعد شدید بارشوں کے باوجود کارونجھر کی ندیوں کے پانی سے کوئی بھی ڈیم نہ بھر سکا۔
تھر کے شاعر اور لکھاری خلیل کنبھر، جنھوں نے پچھلے ہفتے ایک سندھی اخبار میں کارونجھر سے غیر قانونی پتھر نکالنے کے متعلق ایک مضمون بھی لکھا، کہتے ہیں کہ صحرائے تھر میں کئی سالوں سے جاری قحط سالی کے باعث جنگلی حیات کو شدید نقصان پہنچا اور ساتھ ہی پہاڑی سے پتھروں کی کٹائی سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
’کارونجھر پہاڑی سے پتھر نکالنا کوئی نئی بات نہیں۔ ایک بڑے سرکاری ادارے کا ذیلی محکمہ کئی سالوں سے پتھر نکال رہا ہے، مگر حالیہ دنوں تھر میں بننے والے چھوٹے ڈیموں کے ٹھیکے داروں کی جانب سے پتھر نکالنے کے بعد میدانی علاقوں میں واقع چھوٹی پہاڑیاں مکمل طور پر ختم ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ کارونجھر جنگلی حیات کا مرکز ہے مگر کچھ سالوں سے پاکستان رینجرز نے پہاڑی کے درمیان فائرنگ رینج قائم کردی ہے جس سے جنگلی حیات کو مبینہ طور پر شدید نقصان پہنچا ہے۔‘
پچھلے ہفتے جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملتان کا دورہ کیا تو خلیل کنبھر کے دوست اور سرائیکی زبان کے شاعر عفت عباس نے بلال بھٹو کو بتایا کہ وہ کچھ دن پہلے تھر گئے اور وہاں کارونجھر سے پتھر وں کے نکالے جانے کے بعد قدرتی حسن سے مالامال پہاڑی کو تباہ ہوتے دیکھا۔
انھوں نے بلاول سے کہا وہ اس پر کچھ کریں، بقول خلیل کنبہر، بلاول نے عفت عباس کو یقین دلایا کہ وہ اس بارے میں معلومات لیں گے۔
وزیراعلیٰ سندھ کے انسانی حقوق پر معاونِ خاص اور تحصیل نگر پارکر سے تعلق رکھنے والے ویرجی کولہی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سندھ حکومت کے قانون مائیننگ کنسیشن آرڈر کی دفعہ 25 کے تحت کارونجھر میں پتھر نکالنے کے لیے دی گئی ساری لیزز منسوخ ہیں اور اس وقت سرکاری طور پر ایک بھی کمپنی کو پتھر نکالنے کی لیز نہیں۔
انھوں نے بتایا کہ 1980 میں وفاقی حکومت نے کوہ نور نامی ایک کمپنی کو لیز جاری کی تھی مگر بعد میں کوہ نور نے سب لیز جاری کرتے پتھر نکالنے کا کام ایک بڑے سرکارے ادارے کے ذیلی محکمے کو دے دیا تھا۔
’2011 میں جب کمپنی نے چوڑیوکے مقام پر درگا ماتا مندر کے قریب پتھر نکالنا شروع کیے تو میں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جس کے ایک حکم پر کارونجھر سے پتھر نکالنے پر پابندی عائد ہو گئی تھی، اُس وقت سے کوئی بھی پتھر نہیں نکال رہا البتہ ایک سرکاری ادارے کے ذیلی محکمہ مبینہ طور پر پرانے نکالے گئے پتھر اٹھا رہا ہے۔حال ہی میں تھر میں بننے والے چھوٹے ڈیموں کے مقامی ٹھیکے داروں نے پتھر اٹھانا شروع کیا تو میں نے ایس ایچ او نگر پارکر کو خط لکھ کر پتھر اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کی درخواست کی ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ نے بغیر کسی کا نام لیے الزام عائد کیا کہ کارونجھر جبل جو کہ سندھ کا ثقافتی ورثہ ہے تھر کے ایک رکن سندھ اسمبلی نے اپنے فرنٹ مین کو لیز پر دے دیا ہے، جو اب اس تاریخی ورثے کو ریزہ ریزہ کر کے ٹرک بھر کے بیچ رہا ہے۔
دوسری جانب تھر سے منتخب ایم پی اے سراج سومرو نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کارونجھر سے پتھر نکالنے کا عمل 1980 کی دہائی سے جاری ہے جبکہ وہ ڈیڑہ سال پہلے ایم پی اے منتخب ہوئے، اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں کہ وہ اپنے فرنٹ مین کی مدد سے کارونجھر پہاڑی کو کاٹنے کا کام کرہے ہیں تو سامنے لائے جائیں۔
سندھ حکومت نے 2011 میں اعلان کیا تھا کارونجھر کو نیشنل پارک کا درجہ دیا جائے گا۔ بعد میں اپریل 2015 میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی اعلان کیا کہ کارونجھر پہاڑ اور سکھر کے ٹکر والے علاقے کو بھی نیشنل پارک کا درجہ دیا جائے گا، جس پر 50 کروڑ روپےخرچے کا تخمینہ لگایا گیا اور 2014 کے سالانہ بجٹ میں 50 لاکھ روپے مختص بھی کیے گیے تھے مگر تاحال یہ دونوں مقامات نیشنل پارک نہ بن سکے۔
اس حوالے سے جب سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ردعمل دینے سے انکار کردیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کارونجھر اور دیگر مقامات سے معدنیات کی چوری کے حوالے سے سندھ میں اکثر احتجاج کیا جاتا ہے مگر 18 ویں ترمیم کے بعدصوبہ سندھ اپنی منرل پالیسی ہی تاحال نہ بنا سکا ۔