امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی پہلی عوامی سماعت کے دوران یوکرائن میں امریکہ کے اعلیٰ سفارت کار نے نئے انکشافات کیےہیں جن کے مطابق صدر ٹرمپ کو سیاسی ’تفتیش‘ کے بارے میں پوچھتے ہوئے سنا گیا تھا۔ وہی تفتیش جس کا تقاضا انہوں نے بعد میں یوکرائن سے فوجی امداد دینےکے بدلے میں کیا ۔
یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکی ایوان میں ڈیموکریٹس کے دباؤ میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تفتیش ہفتوں تک بند کمروں میں ہونے کے بعد پہلی بار بدھ کو عوام کے سامنے کی گئی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بدھ کو ہونے والی سماعت میں دو سفارت کاروں کے بیانات حیران کر دینے والے تھے۔ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ یہ بیانات صدر کی جانب سے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کو سامنے لاتے ہیں اور امریکی خارجہ تعلقات کااپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانا دیکھاتے ہیں۔
سماعت کے آغاز پر انٹیلی جنس کمیٹی کے ڈیموکریٹک چئیرمین ایڈم شف کا کہنا تھا: ’ یہ معاملہ بہت سادہ اور خوفناک ہے۔ ان سوالوں کے جواب صرف ہمارے موجودہ صدر کے مستقبل پر ہی نہیں بلکہ عہدہ صدارت کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہوں گے۔‘
کیئف میں امریکہ کے سفارت کار ولیم ٹیلر نے نئی گواہئ میں بتایا کہ صدر ٹرمپ کو فون پر بات کرتے سنا گیا جس میں وہ یوکرائن کو ڈیموکریٹس کے خلاف’ تفتیش‘ کرنے کا کہہ رہے تھے۔ مواخذے کی تحقیقات میں اس نقطے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس سماعت کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ بہت مصروف تھے اور یہ سماعت نہیں دیکھ سکے۔ انہوں نے ایسی کسی فون کال کی بھی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا :’ میں نے اس بارے میں پہلی بار سنا ہے۔‘
بدھ کو بھی ان سفارت کاروں کی جانب سے گواہی دی گئی جس میں بتایا گیا کہ کیسے ایک سفیر کو نوکری سے نکالا گیا۔ نئی یوکرائنی حکومت ایک ’بے ضابطہ ذریعے‘ کے سامنے آنے پر تذبذب کا شکار تھی جس میں صدر ٹرمپ کے ذاتی وکیل روڈی جولیانی کی جانب سے ایک متوازی خارجہ پالیسی چلائی جا رہی تھی جس کی وجہ سے سفارتی اور قومی سلامتی کے حلقوں میں تشویش بڑھ گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سماعت ٹی وی پر لائیو دکھائی گئی اور سوشل میڈیا پر بھی اس پر بحث جاری رہی جس سے امریکی قوم کو موقع ملا کہ وہ اس معاملے کو قریب سے دیکھ سکیں۔
اس تفتیش کا مرکز 25 جولائی کو کی جانے والی وہ فون کال تھی جس میں صدر ٹرمپ نے یوکرائن کے نو منتخب صدر ولودیمیر زیلینسکی سے ’ایک فیور‘ مانگا۔
ٹرمپ یوکرائنی حکومت سے 2016 کے انتخابات کے دوران ڈیموکریٹس کی سرگرمیوں اور 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں اپنے ممکنہ حریف جو بائڈن کے خلاف تفتیش کا کہہ رہے تھے۔ یہ ایسے وقت میں کیا گیا جب امریکہ اپنے مشرقی یورپی اتحادی یوکرائن کی فوجی مدد کو روکے ہوئے تھا جب وہ اپنے پڑوسی روس کی جانب سے جارحیت کا سامنا کر رہا تھا۔
دونوں اطراف نے اس کو ساؤنڈ بائٹس کے انداز میں پیش کیا۔
ڈیموکریٹس کا کہنا تھا کہ صدر ’رشوت‘ اور ’دھونس جمانے‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جبکہ ری پبلکنز کے مطابق کچھ ہوا ہی نہیں کیونکہ یوکرائن کی فوجی امداد کانگریس کی شکایت کے بعد بحال کر دی گئی تھی۔
صدر ٹرمپ نے اپنا جارحانہ دفاع مسلسل آگ برساتی ٹویٹس میں جاری رکھا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ ملاقات کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ ایک وچ ہنٹ ہے۔ یہ سب جعلی ہے۔‘
امریکہ بھر میں لاکھوں امریکی اس کو دیکھنے کے لیے ٹی وی آن کر رہے تھے جبکہ کچھ اس سے بچنے کے لیے ٹی وی بند کر رہے تھے۔
دائیں اور بائیں بازو کے سیاسی رجحان والے افراد کے مطابق یہ دن ان کے لیے بہت اہم تھا۔
ہیر ڈریسر انتھونی ہیرس نے یہ سماعت اپنی دکان پر دیکھی ۔ ان کا کہنا تھا: ’یہ ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ اب لوگ اس کو سن سن کر تھک چکے ہیں۔‘
گھنٹوں تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھا جو لوگوں کی یاداشتوں میں رچرڈ نکسن کے دور میں واٹرگیٹ سکینڈل کی سماعت یا بل کلنٹن کے مواخذے کی طرح نقش ہوا ہو۔
کمیٹی کے نمائندے کرس سٹیورٹ، جو ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، کا کہنا تھا کہ ’ کوئی حیرانی نہیں ہوئی، نہ ہی کچھ بڑا ہوا ہے۔‘
لیکن اس کے باوجود چیزیں تقریباً اسی طرح ہوئی ہیں جیسے ڈیموکریٹس چاہتے تھے۔ وزارت خارجہ کے عہدیداروں کے بیانات حقیقت پر مبنی محسوس ہو رہے تھے۔ گواہوں میں ادھیڑ عمر ولیم ٹیلر اور ڈپٹی اسسٹنٹ وزیر خارجہ جارج کینٹ شامل تھے۔
دونوں عہدیدار واہٹ ہاوس کی جانب سے پیش نہ ہونے کی ہدایات کے باوجود گواہی دینے پہنچے۔ انہیں پیش ہونے کے لیے سمن بھیجے گئے تھے۔ وہ ان درجنوں حاضر سروس اور ریٹائڑد عہدیداروں میں شامل تھے جنہیں بند کمروں کی سماعت میں بھی گواہی کے لیے بلایا گیا تھا۔ بدھ کو شروع ہونے والی سماعت اگلے ہفتے بھی جاری رہے گی۔
ولیم ٹیلر، جنہیں وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یوکرائن واپس جانے کا کہا تھا کیونکہ صدر ٹرمپ وہاں موجود سفیر مری یوانووچ کو برخاست کر رہے تھے، نے سماعت میں نئی معلومات بھی فراہم کیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں بتایا کہ ان کے عملے کےایک رکن نے انہیں آگاہ کیا کہ اس نے صدر ٹرمپ کی ایک اور سفارت کار گورڈن سونڈلینڈ کے ساتھ گفتگو سنی تھی جو 25 جولائی کو کی جانے والی فون کال کے ایک دن بعد پیش آئی۔ عملہ ارکان کے مطابق سونڈلینڈ نے صدر کو کال کی اور صدر کو ’تفتیش‘ کی بات کرتے سنا جا سکتا تھا۔ولیم ٹیلر نے گواہی دی کہ عملہ ارکان کے مطابق سونڈلینڈ نے صدر کو بتایا کہ یوکرائنی حکام اس معاملے میں آگے بڑھنے پر تیار ہیں۔
صدر ٹرمپ اس معاملے کی تردید کرتے ہیں جس پر کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شف کو امید ہے کہ عملے کے یہ رکن بند کمرے کی سماعت میں پیش ہو کر بیان دینے پر رضامند ہو جائیں گے۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ شخص ڈیوڈ ہومز ہیں جو کیئف کے سفارت خانے میں سیاسی قونسلر ہیں۔
ری پبلکنز کا کہنا ہے کہ سفارت کاروں کی گواہی کے باوجود ڈیموکریٹس کو ملنے والی معلومات ثانوی ذرائع سے حاصل کردہ ہیں جن میں صدر ٹرمپ پر اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام ہے۔ پینل میں موجود صدر ٹرمپ کے حامی جم جورڈن نے ولیم ٹیلر کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں ’سٹار وٹنس‘ قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس بیان کے مقابلے میں گرجا گھر میں پڑھی جانے والی دعاؤں کو سمجھنا آسان ہے۔‘
ولیم ٹیلر جو فوجی رہ چکے ہیں نے جواب دیا کہ وہ خود کو سٹار وٹنس نہیں سمجھتے۔
پینل میں موجود ری پبلکن رکن ڈیون نونز کا کہنا تھا: ’صدر ٹرمپ 2016 کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کے کردار کی تفتیش کرنے کی مکمل وجہ رکھتے ہیں۔‘
ان کے بیان نے اس تصور کو ایئر ٹائم دیا جو اس تفتیش کے برعکس جاتی ہے جس میں امریکی انٹیلی جنس ادارے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ روس نے امریکی اتخابات میں مداخلت کی اور صدر ٹرمپ کا ساتھ دیا۔
نونز نے ڈیموکریٹس پر الزام لگایا کہ وہ صدر کا تختہ الٹنے پر جٹے ہوئے ہیں۔
سابق اہلکاروں نے یواکرئن کا دفاع کرتے ہوئے کہ وہ روس کے برابر میں جنم لینے والی ایک کم عمر جمہوریت ہے جو مدد کے لیے مغرب کی جانب دیکھ رہی ہے۔
جب ولیم ٹیلر سے یوکرائن کی فوجی امداد روکنے کے فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں ن کہا: ’یہ بالکل احمقانہ ہے اور کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‘
دونوں سابق سفارتی اہلکاروں نے برخاست کی جانے سفیر مری یوانووچ کے حق میں بیان دیتے ہوئے بتایا کہ کیسے انہیں روڈی جولیانی کی ’جھوٹ پر مبنی مہم‘ کا نشانہ بنایا گیا۔ میری یوانووچ جمعے کو عوامی سماعت میں پیش ہوں گی۔
ری پبلکنز نےاس نامعلوم راز فاش کنندہ شخص کو بند کمرے کی سماعت میں پیش ہونے کے لیے کہا جس کے بیان کی بنیاد پر صدر کے خلاف یہ تحقیقات شروع ہوئی ہیں، تاہم پینل نے اس درخواست کو رد کر دیا۔ ایڈم شف نے ری پبلکنز کے اس موقف کی تردید کی ہے کہ وہ اس نامعلوم شخص کو جانتے ہیں۔
ایڈم شف نےکہا: ’ہم اس ویسل بلوئر کوہر صورت میں محفوظ رکھیں گے۔‘
اس نامعلوم شخص نے حکام کو صدر ٹرمپ کی زیلینسکی سے فون کال کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ وائٹ ہاوس نے اس کال کا سکرپٹ جاری کیا تھا جس کا کافی حصہ حذف نہیں کیا گیا تھا۔
ایوان کی سپیکر نینسی پلوسی آغاز میں مواخذے کی تفتیش سے ہچکچا رہی تھیں لیکن راز فاش کرنے والے شخص کی جانب سے شکایت کے بعد انہوں نے اس کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
بدھ کو ان کا کہنا تھا کہ یہ افسوس ناک ہے کہ ملک کو ٹرمپ کے ساتھ اس تفتیش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن ’انہیں احتساب کا سامنا کرنا ہوگا۔‘