جمعیت علمائے اسلام ۔ ف کی جانب سے اسلام آباد میں تیرہ روزہ دھرنا ختم ہونے کے بعد پارٹی کارکنوں نے جمعرات کو پلان ’بی‘ کے تحت خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں اہم شاہراہیں بند رکھیں۔
میں خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن میں چکدرہ کے مقام پر موجود تھا جہاں پُل پر اہم شاہراہ کو دوپہر12 بجے سے بند کر دیا گیا۔
اسلام آباد میں آزادی مارچ کے وقت کارکن زیادہ پُرجوش دکھائی دیے لیکن آج چکدرہ میں، میں نے ان مرجھائے چہرے دیکھے۔
چکدرہ کے مقام پر، جہاں یہ دھرنا دیا گیا اس کے قریب ہی دریائے سوات بہہ رہا ہے۔ سردی زیادہ ہونے کے باوجود خیمے دریا سے زیادہ دور نہیں تھے۔
جب میں نے کچھ نوجوان کارکنوں سے پوچھا کہ آپ اتنی زیادہ سردی میں رات کیسے گزاریں گے؟ تو ایک کارکن نے مسکرا کرجواب دیا ’ہم سوات سے آئے ہیں اور ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ رات یہاں گزارنی بھی ہے یا نہیں‘۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دھرنے کے منتظمین کو بھی کارکنوں کے مرجھائے ہوئے چہروں کا اندازہ تھا، اسی لیے اعلان کیا گیا کہ اگر کوئی کارکن کمبل یا رضائی ساتھ نہیں لایا تو ان سے لے سکتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ جن کارکنوں نے اپنے لیے کھانے کا انتطام نہیں کیا انہیں کھانا فراہم کیا جائے گا۔
ایک منتظم نے بتایا کہ انہیں پتہ چلا کہ کچھ کارکن موٹرسائیکل اور گاڑیوں میں سوار ہو کرچپکے سے گھر واپس جا رہے ہیں۔ ایسے میں انہوں نے کارکنوں سے کہا کہ وہ موبائل فون کی لائیٹ جلا کر عہد کریں کہ وہ پنڈال چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور رات یہیں گزاریں گے۔
پنڈال میں پارٹی کی ذیلی تنظیموں کے رہنما تو موجود تھے لیکن صوبائی رہنما نظر نہیں آئے، حتی کہ دھرنے کے انچارج اور سابق رکن صوبائی اسمبلی مفتی فضل غفور بھی سٹیج پر نظر نہ آئے۔
یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ کچھ کارکن خیمے، کمبل اور کھانے پینے کی اشیا ساتھ لائے تھے لیکن کئی کارکن خالی ہاتھ تھے۔
دھرنے کے مقام پر پولیس کی نفری کم اور اس سے کچھ زیادہ فاصلے پر زیادہ دکھائی دی۔ چکدرہ پولیس چوکی کے قریب کنٹینر سڑک کے کنارے پر رکھے نظر آئے جنہیں بعد میں کارکنوں نے سڑک بند کرنے کے لیے استعمال کیا لیکن پولیس نے انہیں ایسا کرنے سے نہیں روکا۔
چکدرہ پُل ایک اہم شاہراہ پر واقع ہے، جو سات اضلاع کو ملاتی ہے۔ تاہم ان اضلاع کو جانے والے متبادل راستے بھی ہیں جہاں بےہنگم ٹریفک دیکھنے میں آئی۔
شاہراہ کو تمام ٹریفک کے لیے بند کیا گیا تھا لیکن جے یو آئی ۔ ف کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام کے رضاکار ایمبولینس اور ایسی گاڑی جس میں خواتین سوار ہوتیں اس کے لیے راستہ چھوڑ دیتے تھے۔