پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہائی کورٹ کے قریب چائے خانہ قائم کیا گیاہے جس میں وزیر اعظم عمران خان کے نام سے منسوب ’کپتان چائے‘ جبکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے نام سے ’نواز چائے‘ فروخت کی جارہی ہے۔
ویسے تو گلی محلوں اور بازاروں میں چائے خانے ہمیشہ سے سیاسی بحث ومباحثوں کا مرکز تصور کیے جاتے ہیں لیکن ایسا پہلی بار دیکھنےمیں آیا ہے کہ کسی ہوٹل کےمالک نے سیاسی قائدین کے نام پر چائے کا کاروبار کیا اور سیاسی قیادت کی ان کے حامیوں کی نفسیات کے مطابق قیمتیں مقرر کر رکھی ہوں۔
ہوٹل مالک محمود سندھوکے مطابق انہوں نے نواز شریف کے حامیوں کے لیے چائے کا فی کپ ’نواز چائے‘30روپے جبکہ عمران خان کے حامیوں کے لیے 50روپے’ کپتان چائے ‘کا ریٹ مقرر کر رکھاہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’نواز چائے‘ کی قیمت کم رکھنے کا جواز یہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں چائے سمیت اشیا کی قیمتیں کم تھیں جبکہ اس کے برعکس موجودہ دور حکومت میں مہنگائی بڑھی ہے۔ لہذا کپتان کے حامیوں کو مہنگی چائے فروخت کر کے یہ احساس دلانابھی ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی حمایت پر ان کی پالیسیوں سے بھی اتفاق کریں اور مہنگی چائے خرید کر پیئیں۔
محمود سندھو نے کہا: ’ انہیں بتایا جاتا ہے کہ جس طرح وہ اپنے لیڈر کے فین ہیں اور دیگر سیاسی قیادت کو مسترد کرتے ہیں ،انہیں برینڈ مانتے ہیں تو چائے بھی ان کے نام سے منسوب مہنگے داموں خرید کر پیئیں۔ ہوٹل مالک نےمزید بتایاکہ دونوں شخصیات سے منسوب چائے پکائی بھی الگ الگ جاتی ہے اور ذائقہ بھی مختلف رکھا جاتاہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہائی کورٹ کےقریب ہونے کی وجہ سے اس چائے خانے میں وکلا کی بھی بڑی تعداد آتی ہے۔ ہوٹل پر موجود وکلا کے گروپ میں بعض نے ’نواز چائے‘ کا آرڈر دیا اور کئی عمران خان کے فالوورز تھےتو انہوں نے صرف اس وجہ سے ’کپتان چائے‘ کی مانگ کی کہ ان کی پسندیدہ قیادت کے نام سے منسوب ہے۔
وہاں موجود ایک وکیل نے چائے کاآرڈر پوچھنے پرکہا کہ ان کی وابستگی دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں لہذا دونوں چائے مکس کر کے انہیں فضل الرحمٰن چائے دی جائے جس پر ہوٹل میں موجود افراد نے قہقہہ لگایا۔
ہوٹل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے صاف ستھرا ماحول عوامی ہوٹل بنا کر فراہم کیا تو آئیڈیا بھی منفرد اپنایاگیاہے۔ان کا مقصد کسی سیاسی جماعت کی تشہیر یا منفی پروپیگنڈا نہیں بلکہ خوشی خوشی گاہکوں کو معیاری سروس فراہم کرنا ہے اسی لیے سارا دن ہوٹل پر’ کپتان چائے‘ یا ’نواز چائے‘ کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں اور دونوں جماعتوں کے حامی مزہ دوبالا کر کے چلے جاتے ہیں۔ روزانہ کا یہ خوشگوار ماحول لوگوں کو تروتازہ بھی رکھتا ہے اور چائے کی طلب بھی پوری ہوجاتی ہے۔