وہ شطرنج نہیں کھیلتے اور نہ ہی موسیقی کا کوئی آلہ بجاتے ہیں لیکن انہیں آن لائن ویڈیو گیم ’فورٹ نائٹ‘ اور’منس کرافٹ‘کھیلنا اور ویڈیو سٹریمنگ کمپنی نیٹ فلکس کی فلمیں دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔
بیلجیئم کے نو سالہ لورینٹ سائمنز جلد ہی یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے دنیا کے کم عمر ترین افراد میں شامل ہو جائیں گے۔ اسی لیے ان کے اساتذہ اور دیگر لوگ انہیں بے حد ذہین کہتے ہیں۔
ان کے والد الیگزینڈر سائمنز دانتوں کے ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے ٹیلی فون پر ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کا بیٹا اتنا ہی کہتا ہے کہ ’میں بہت سست ہوں۔‘ الیگزینڈر کے مطابق ایسا اس لیے ہے کہ کیوں کہ وہ کھیلوں میں حصہ نہیں لیتا۔
انہوں نے مزید کہا: ’ذہین افراد کے بارے میں بہت سے لوگ مخصوص خیالات کے مالک ہوتے ہیں۔‘
ایسا اس لیے ہے کہ لوگ پیدائشی طور پر ایسے ذہین افراد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جنہیں کوئی موسیقی کا آلہ بجانے میں مہارت حاصل ہو یا کوئی چھوٹی عمر میں گریجویشن یا کھیلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی بدولت جانا جاتا ہو۔ آسٹریا کے موسیقار موزارٹ نے پانچ برس کی عمر میں موسیقی تیار کی۔ سپین کے مصور پکاسو نے جب اپنی پہلی تصویر مکمل کی تو ان کی عمر نو برس تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ایک ایسے دور میں جب سوشل میڈیا پر قابلِ ذکر مواد موجود ہے اور دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد اپنی پروڈکٹس کے ساتھ تصویر بنوا کر پیسہ کما رہے ہیں، لورینٹ آپ کے لیے مخصوص ذہین بچے نہیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ انسٹا گرام پر ہیں، جن کے فالورز کی تعداد اس جمعے تک 13 ہزار سے زیادہ تھی۔
لورینٹ بیلجیئم کے شہر اوسٹینڈ میں پیدا ہوئے۔ وہ ہالینڈ میں آئینڈہوون یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں الیکٹریکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی میں داخلے کے وقت ان کی عمر آٹھ برس تھی۔ وہ 10 ماہ مین تین سالہ پروگرام مکمل کرلیں گے۔
اگر سب ٹھیک رہا اور انہوں نے اپنا آخری پراجیکٹ مکمل کر لیا جو انسانی دماغ سے منسلک برقی چِپ سے متعلق ہے تو وہ دسمبر میں گریجویٹ بن کر یونیورسٹی سے نکلیں گے۔
لورینٹ نے کہا: ’اگر ایسا ہوگیا تو میں میڈیسن پڑھوں اور اس میں ڈاکٹریٹ کرکے مصنوعی اعضا تیار کروں گا۔‘
لورینٹ اپنے دادا دادی کے ساتھ بیلجیئم میں پلے بڑھے جبکہ ان کے والدین ہالینڈ میں کام کرتے ہیں۔ ان کے والد کے مطابق انہوں نے چار سال کی عمر میں پرائمری تعلیم شروع کی اور چھ سال کی عمر میں ہائی سکول پہنچ گئے۔ لورینٹ اس وقت اپنے والدین کے ساتھ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں رہتے ہیں۔
سائمنز نے اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا کہ ’ان کے دادا دادی نے ہمیشہ ہمیں بتایا کہ لورینٹ بہت خاص ہے۔ ہمارا خیال تھا وہ اسے بہت سنجیدہ لے رہے ہیں۔‘
اب سائمنز اور ان کی اہلیہ بھی ایسا ہی کہتے ہیں اور یونیورسٹی میں لورینٹ کے اساتذہ کہتے ہیں کہ وہ ان سے بہت متاثر ہیں۔
یونیورسٹی میں جدید الیکٹرونکس کے پروفیسر پیٹربالٹس نےکہا: ’لورینٹ کی سمجھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے سب کچھ بہت تیزی سے ہوتا ہے اور ہم مختصر وقت میں بہت سی چیزیں کر لیتے ہیں۔ یہ بہت خاص اور پرلطف بات ہے۔‘ پیٹربالٹس لورینٹ کے سرپرست بھی ہیں۔
یونیورسٹی کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ لورینٹ اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو سال کے آخر تک وہ گریجویشن کر لیں گے۔
سائمنز نے کہا کہ سکول سے نکلنے کے بعد لورینٹ اپنی عمر کے کسی بھی دوسرے بچےکی طرح ہوتے تھے اور اپنے سمارٹ فون پر ویڈیو گیمز کھیلنا اور کبھی کبھار تیراکی کرنا ان کے مشاغل تھے۔ دوسری جانب وہ ’بلیک لسٹ‘ جیسی ٹیلی ویژن سیریز دیکھتے ہیں اور ان کا آئی کیو 145 ہے۔
لورینٹ اپنے والدین کے ہمراہ۔ (تصویر: ڈیر اسپیگل)
یہ کہنا درست ہو گا کہ لورینٹ کے والدین نے انہیں چھوٹی سطح پر مشہور شخصیت بننے میں مدد دی ہے اور ان کے لیے ایسے حالات پیدا کیے کہ وہ کئی انٹرویو دے سکیں اور پریس کانفرنس کر سکیں۔
آج کے فوری طور پر مشہور ہو جانے کے اس دور میں بہترین دماغ کے مالک بچے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں پر زیادہ دیر تک چھپے نہیں رہ سکتے۔
لورینٹ کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ٹیلی ویژن کے عملے کے سامنے بیٹھے ہیں۔ نیچے ’انٹرویوز کا مصروف ہفتہ !!‘کے الفاظ درج ہیں۔ انسٹاگرام پر ’لورینٹ سائمنز‘ اور ’جائی گینٹک پلانز‘ کے ہیش ٹیگز کو فالو کیا جا رہا ہے۔
دوسری تصاویر میں انہیں ایک سوئمنگ پول پر بیلجیئم کے سابق وزیر اعظم ہرمن وان رومپیو کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے دادا دادی بھی ساتھ ہیں جبکہ ان کے قریب بِکنی میں ملبوس خواتین موجود ہیں۔
بیٹے کے نام سے بنائے گئے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بالغ افراد کے موضوعات دکھائی دینے کے سوال پر سائمنز نے کہا کہ ان کے اکاؤنٹ کو والدین دیکھتے ہیں۔
لورینٹ کی انسٹاگرام پر موجود پوسٹس مشہور ہو جانے والے دوسرے بچوں کے اُن سوشل میڈیا اکاؤنٹس جیسی ہیں، جنہیں ان کے والدین دیکھتے ہیں۔ (امریکی راک بینڈ نروانا کے انداز میں ڈرم بجانے والی نو سالہ برطانوی بچی کی ویڈیو کو 70 لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا۔)
برقی چِپس یا سائنسی لیبارٹریوں سے دور اپنی پوسٹوں میں لورینٹ بھی سوئمنگ پول میں اچھلتے کودتے یا دوستوں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے تدریسی نصاب کا اگلا باب امریکہ جا کر پڑھیں گے۔ اس سوال پر کہ وہ کون سی یونیورسٹی میں داخلہ لیں گے؟ ان کے والد نے مداخلت کی اور کہا کہ یہ ’خفیہ‘ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم اسے آدھا وقت یورپ اور آدھا وقت امریکہ میں پڑھانا پسند کریں گے۔ اس لیے لورینٹ ہم سے زیادہ دور نہیں ہے۔‘
انٹرویو کے دوران لورینٹ کسی نو سالہ بچے کی طرح ہی رہے۔ مختصر جواب دیا یا تفصیل سے بات نہیں کی لیکن یہ ضرور تفصیل سے بتایا کہ وہ مستقبل یعنی اپنے لڑکپن میں مصنوعی دل کیوں تیار کرنا چاہتے ہیں۔
لورینٹ کے دادا دادی نے دل کے مرض کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ لورینٹ نے بتایا: ’میں ان جیسے لوگوں کی مدد کرنا پسند کروں گا۔‘
© The Independent