آئین پاکستان کے ساتھ فٹ بال نہیں کھیل سکتے: چیف جسٹس

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمیں اکثر یہ مثال دی جاتی ہے کہ جو لوگ قانون نافذ کرنے والوں کے سروں سے فٹ بال کھیلتے ہیں اُن کے ساتھ آپ کیا کریں گے؟ تو میرا جواب یہ ہے کیا ہم اُس کے جواب میں آئین پاکستان سے فٹ بال کھیلیں؟‘

چیف جسٹس نے تصدیق کی کہ قانون کے مطابق کسی خطرے کے پیش نظر تین ماہ تک بغیر کسی ٹرائل کے کسی کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ (فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ)

فاٹا پاٹا ایکٹ میں ترامیم اور حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بدھ کو ہونے والی سماعت میں کہا کہ ’حراستی مراکز کے حوالے سے معاملہ مرحلہ وار دیکھیں گے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’پہلا مرحلہ اس کیس میں حراستی مراکز کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے۔ آئین کے آرٹیکل دس جو بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے، اُس نے پوری سکیم دے رکھی ہے۔ اور عدالت نے اُس کو فالو کرنا ہے۔‘ 

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمیں اکثر یہ مثال دی جاتی ہے کہ جو لوگ قانون نافذ کرنے والوں کے سروں سے فٹ بال کھیلتے ہیں اُن کے ساتھ آپ کیا کریں گے؟ تو میرا جواب یہ ہے کیا ہم اُس کے جواب میں آئین پاکستان سے فٹ بال کھیلیں؟‘

کیا بغیر ٹرائل حراست میں رکھا جا سکتا ہے؟ 

چیف جسٹس نے تصدیق کی کہ ’قانون کے مطابق کسی خطرے کے پیش نظر تین ماہ تک بغیر کسی ٹرائل کے کسی کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ اُس کے بعد نظر ثانی بورڈ کے سامنے معاملہ لے جایا جاتا ہے جہاں اُس متعلقہ شخص کی حراست میں توسیع کی جا سکتی ہے۔ لیکن آٹھ ماہ سے زیادہ کسی کو بغیر ٹرائل کے زیر حراست نہیں رکھا جا سکتا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کیس کے دوران ایک مرحلے پر ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ حراستی مراکز میں کون کس مدت سے ہے اور جس کی مدت میں تین ماہ سے توسیع کی گئی ہے نظر ثانی بورڈ نے اُس کی کیا رپورٹ بنا کر توسیع دی ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی اور اٹارنی جنرل کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ پہلے دن کی سماعت میں اٹارنی جنرل انور منصور نے اس بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی موجودگی پر اعتراض کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائزعیسی وفاق کے خلاف بیان دے چکے ہیں اس لیے وہ جانبدار ہیں لیکن چیف جسٹس نے معاملہ سلجھا دیا تھا۔ آج کی سماعت میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے سوالات کے جواب میں اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ’کسی کو حراست میں لینے کا اختیار آج بھی صوبوں کے پاس ہے۔ وفاق اور صوبے دونوں کو قانون سازی کا اختیار ہے۔ سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے قانون صوبے بنا سکتے ہیں۔‘

بعد ازاں انہوں نے مزید کہا کہ ’تفصیلی موقف صحت یاب ہوکر اپنے دلائل میں دوں گا۔‘ جسٹس قاضی فائز عیسی نے برجستہ کہا کہ ’آپ دلائل نہیں دے سکتے تو آئے کیوں ہیں؟‘ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’مجھے کچھ ایشوز پر تیاری کے لیے وقت چاہیے۔‘ جسٹس قاضی فائز نے کہا ’اگر ابھی بھی آپ نے تیاری کرنی ہے تو ہم یہاں کس لیے آئے ہیں؟ جو دلائل آپ دے رہے ہیں کیا آپ خود بھی اُس سے مطمئن ہیں؟‘ 

قاضی فائز عیسی سے اٹارنی جنرل نے کہا ’کہ اگر آپ نے جارحانہ ہونا ہے تو میں دلائل نہیں دے سکتا۔‘ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو جواب دیا کہ ’ایسا کچھ نہیں ہے آپ دلائل جاری رکھیں۔‘

چیف جسٹس نے سوالات کیے کہ ’فوج سے متعلق قانون سازی صوبے نہیں کر سکتے۔ قانون سازی آئین کے خلاف ہوئی تو آرٹیکل 245 کا تحفظ نہیں ملے گا۔‘ چیف جسٹس نے کہا ’اگر ایکشن اِن ایڈ ان سول پاور میں امن کے وقت میں دفاع پاکستان کا معاملہ ہے تو فوج کو بلایا جا سکتا ہے؟‘ 

جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ’کیا حکومت پاکستان نے اندرونی جارحیت کے بعد حالت جنگ کا اعلان کیا؟‘ 

اٹارنی جنرل نے طبیعت خرابی کے باعث مزید دلائل دینے سے معذرت کی اور کہا کہ اُن کے علم میں نہیں، ’ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تاہم حتمی جواب معلومات لے کردوں گا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’حکومت اور وزارت قانون تمام قوانین کو کھنگالیں۔ 2019 کے قانون سے پہلے کوئی سوچ بچار تو ہوئی ہو گی؟ پہلے سے موجود دو قوانین کی موجودگی میں آرڈیننس جاری کردیا گیا، کسی نہ کسی نے تو سوچا ہو گا کہ قانون کیوں بنانا ہے؟ ہمارے ملک میں چیزوں کا نظر انداز ہونا بھی عام ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’میں کسی کے خلاف بات نہیں کرنا چاہتا لیکن بد قسمتی سے بہت سی جگہوں پر قابلیت کا بھی فقدان ہے۔‘ 

بدھ کو مختصر دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر حکومت مطمئن نہ کرسکی تو قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ آئینی معاملات پر مطمئن نہ ہوئے تو سارا معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اصل ایشو بغیر ٹرائل لوگوں کو حراست میں رکھنا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت انسان کی عظمت کے حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بدترین مجرم کو بھی آ ئینی حق دینا ہوتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان