چمکتی ہوئی دھوپ میں کرکٹ کے لیے موزوں ترین دن میں جب دونوں کپتان ٹاس کے لیے گئے تو کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ گرین وکٹ پر پاکستان کے نئے کپتان اظہر علی ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کریں گے، لیکن اظہر علی نے نہ صرف اپنے فیصلے بلکہ ٹاس کے بعد انٹرویو میں بھی بلا کے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک زبردست بیٹنگ وکٹ ہے اور اگر ہم نے پہلے دو گھنٹے گزار لیے تو ہم بڑا سکور کر کے آسٹریلیا پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان نے توقع کے مطابق 16 سالہ نسیم شاہ کو ٹیسٹ کیپ دی جواس وقت مقبولیت کے لحاظ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنے ہوئے ہیں۔ نسیم شاہ کو بولنگ کے لیے تو ابھی انتظار کرنا ہو گا لیکن میچ سے قبل انٹرویو میں انھوں نے پراعتماد انداز میں بہترین کارکردگی کے عزم کا اظہار کیا۔
پاکستان نے وہی ٹیم کھلائی جو تین روزہ میچ کھیلی تھی۔ انڈپینڈنٹ اردو نے چند روز قبل اسی ٹیم کو کھلانے کی پیشن گوئی کی تھی، آسٹریلیا نے بھی وہی ٹیم کھلائی جس کا ہم نے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گابا برزبین کی تیز وکٹ پر پاکستان کے اوپنروں اظہر علی اور شان مسعود نے ایک طویل عرصہ کے بعد اچھی شراکت جمائی اور سکور کو 75 تک لے گئے۔ ان کی اننگ سست روی کا شکار تھی تاہم اظہر 39 اور شان مسعود 27 رنز بنا کر ہیزل ووڈ کے ہاتھوں آؤٹ ہو گئے۔ بعد میں آنے والے بلےبازوں کی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ نے ٹیم کو مشکل میں ڈال دیا۔
مزید تین کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پر پاکستان کا سکور بورڈ 90 پر پانچ وکٹ میں تبدیل ہو گیا۔ اس ٹور پر مسلسل ناکام رہنے والے حارث سہیل اور اِن فارم بیٹسمین بابر اعظم لاپروائی سے کھیلتے ہوئے محض ایک ایک رن بنا کر چلتے بنے، افتخار بھی صرف سات رنز بنا سکے اور ایک معمولی سی گیند پر سپنر نیتھن لائن کو وکٹ بطور تحفہ دے گئے۔
اس موقعے پر ایسا لگ رہا تھا جیسے سوا سو پر پاکستانی اننگز کا بستر گول ہو جائے گا مگر اسد شفیق نے رضوان کے ساتھ مل کر آہستہ آہستہ سکور آگے بڑھانا شروع کیا۔ رضوان نے کمنز کے ایک اوور میں تین چوکے لگا کر پاکستانی کیمپ کو امید دلائی لیکن وہ بھی 37 رنز کھیل کر ایک باہر جاتی ہوئی گیند سے چھڑچھاڑ کے نتیجے میں پویلین سدھار گئے۔
اب پاکستان کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو اسد شفیق اور یاسر شاہ نے سنبھال لیا اور 84 رنز کی پارٹنرشپ بنا کر پاکستان کو مکمل تباہی سے بچا لیا۔ اسد شفیق نے ذمہ داری کے ساتھ دلکش بیٹنگ کی۔ انھوں نے سات چوکوں کی مدد سے 76 رنز کی اننگ کھیلی اور آسٹریلین کمنٹیٹروں اور تماشائیوں سے داد وتحسین حاصل کی۔ سب کا خیال تھا کہ وہ اپنی ایک اور سنچری برزبین میں مکمل کرلیں گے لیکن وہ دوسری نئی بال پر کمنز کے ہاتھوں بولڈ ہو گئے۔ یاسر شاہ نے قیمتی 26 رنز بنائے۔
پاکستان کو اپنی اننگز کے دوران دو بار تباہ کن بیٹنگ کولیپس کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے 75 سے 78 رنز کے سفر میں چار وکٹیں گریں اور آخر میں 227 سے 230 تک کے تین رنز پر پاکستان کی ایک پھر چار وکٹیں گر گئیں۔ گویا میچ کے دوران پاکستان نے چھ رنز کی قیمت آٹھ وکٹوں کی صورت میں چکائی۔ اب کوئی بتائے کہ اس پرفارمنس کے بعد آسٹریلیا سے آسٹریلیا میں میچ کیسے جیتا جا سکتا ہے؟
آسٹریلیا کی طرف سے مچل سٹارک نے اچھی بولنگ کرتے ہوئے چار، کمنز نے تین اور ہیزل ووڈ نے دو وکٹیں لیں۔
اسی دوران ایک تنازع بھی دیکھنے میں آیا۔ محمد رضوان جس گیند پر آؤٹ ہوئے اس کے بارے میں اکثر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وہ نو بال ہے، مگر تھرڈ امپائر نے حیرت انگیز طور پر اسے جائز بال قرار دے کر رضوان کی اچھی اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ تھرڈ امپائر نے کہا کہ انہوں نے یہاں شک کا فائدہ بولر کو دیا ہے، حالانکہ کرکٹ میں عموماً شک کا فائدہ بلےباز کو دیا جاتا ہے۔
اس سے قطع نظر پاکستانی بلے بازوں کی کارکردگی ان دعووں کے برعکس رہی جو پچھلے کئی دنوں سے کوچ مصباح الحق کر رہے تھے۔
آسٹریلیا اپنی اننگز کا آغاز کل صبح کرے گا اور پہلا سیشن دلچسپی کا حامل ہو گا کیونکہ ہر ایک کی نظریں نوجوان نسیم شاہ پر جمی ہیں۔ برزبین کی وکٹ میں باؤنس بھی ہے اور پیس بھی، دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان امیدوں پر کتنا پورا اترتے ہیں۔