فلم ’پنکی میم صاحب‘ سے شہرت پانے والی ہاجرہ یامین نے انکشاف کیا ہے کہ ڈرامہ سیریل ’عہدِ وفا‘ میں صحافی کا کردار ادا کرنے کے لیے انہوں نے دیگر مشہور صحافیوں سمیت غریدہ فاروقی کے ویڈیو کلپ دیکھے تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ہاجرہ نے بتایا: ’کوئی بھی کردار آسان نہیں ہوتا لیکن چونکہ ڈرامے کی پروڈکشن ٹیم اچھی تھی، اس لیے زیادہ دِقّت نہیں ہوئی۔ صحافی کا کرداراس سے پہلے ایک تھیٹر ’سیاچن‘ میں ادا کرچکی تھی، تو وہ تربیت بھی کام آئی اور اس کے ساتھ ساتھ جتنے جانے مانےصحافی ہیں خاص کر غریدہ فاروقی کے ویڈیو کلپ دیکھے اور اس طرح یہ کردار ادا کیا۔‘
فلم، ٹی وی اور تھیٹر میں سے سب سے زیادہ مشکل شعبہ کون سا لگا؟ اس سوال پر ہاجرہ نے جواب دیا: ’تینوں مختلف میڈیم ہیں جن کا آپس میں مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ تھیٹر زندگی میں نظم و نسق سکھاتا ہے تو عام زندگی میں بھی بہت کام آتا ہے۔‘
ہاجرہ کا کہنا تھا کہ بطور اداکار وہ سمجھتی ہیں کہ انہیں ان تینوں میڈیم میں کام کرنا آنا چاہیے کیونکہ ان میں کوئی بھی ایک دوسرے سے بڑا نہیں ہے۔
فلم اور ٹی وی میں تھیٹر سے مدد ملنے پر ان کا کہنا تھا کہ ’بالکل ایسا ہوا ہے حالانکہ فلم کا تجربہ تھیٹر سے بہت مختلف ہے لیکن ایک چیز جو وہ تینوں جگہ ضرور کرتی ہیں وہ ہے ریہرسل یعنی مشق۔‘ ہاجرہ کے مطابق ٹی وی میں لوگ عام طورپر ریہرسل نہیں کرتے لیکن چونکہ ان کے ہدایت کار شاہد شفاعت کا تعلق بھی تھیٹر سے رہا ہے اس لیے وہ بھی ریہرسل پر یقین رکھتے ہیں۔
ہاجرہ یامین کو شہرت فلم ’پنکی میم صاحب‘ سے ملی، لیکن اس کے بعد انہون نے کوئی فلم سائن نہیں کی۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جنہیں کرنے کے بعد عوام کی توقع آپ سے بہت بڑھ جاتی ہے۔ پنکی کا کردار بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اسی لیے کبھی کبھی اسکرپٹ پڑھتے ہوئے ڈر بھی لگتا ہے کہ کیسا ہوگا، لیکن ابھی بات چل رہی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی آپ مجھے فلم میں دیکھیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی فلموں اور ڈراموں میں خواتین کو پیش کیے جانے کے انداز پر ہاجرہ کو کافی اعتراض رہا ہے۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’ 2018 میں ’کیک‘ اور ’موٹر سائیکل گرل‘ جیسی فلموں کی وجہ سے پاکستان کی متوازی فلمی صنعت بہت تیزی سے آگے بڑھی، پھر 2019 میں ’لال کبوتر‘ نے بہت اعلیٰ کام کیا لیکن جب ایسی فلمیں ہوں جن میں عورت کو ’ایک چیز‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہو، اس کو مذاق حتیٰ کہ تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہو تو ظاہر ہے میں ایسا نہیں کرسکتی۔ اب تو مجھے خوشی ہے کہ لوگ اس بارے میں بولنا شروع ہوگئے ہیں۔‘
اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کرتے ہوئے ہاجرہ نے بتایا کہ ’انہیں ایک اسکرپٹ ملا جس میں پہلا مذاق ہی یہ تھا کہ ایک پراپرٹی ڈیلر ایک گاہک کو گھر دکھانے لے جاتا ہے تو گاہک اس سے کہتا ہے کہ اگر یہ گھر ایک کنواری لڑکی کی طرح دِکھتا تو یہ کروڑوں میں بکتا، لیکن چونکہ یہ ایک بیوہ عورت کی طرح دِکھ رہا ہے اس لیے یہ تو کوئی 50 لاکھ میں بھی نہیں لے گا۔ تو جب ایسے جملے اسکرپٹ میں ہوں گے تو آپ کیسے اس میں کام کرسکتے ہیں؟‘
پاکستانی شوبز کی صنعت میں خوبصورتی کے معیارات پر ہاجرہ کا کہنا تھا کہ ’انہیں سب سے زیادہ جو مشکلات آئیں وہ یہ تھیں کہ اگر آپ کے بال گھنگھریالے ہیں تو آپ کوئی ماڈرن کردار ادا کریں یا پھر بال سیدھے کرلیں یا جیسے اگر آپ جینز پہنتی ہیں تو کوئی مخصوص کردار کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’موٹا ہونے، پتلا ہونے یا کسی مخصوص ساخت یا طرز کی بنیاد پر نہیں بلکہ اداکار ہونے کی بنیاد پر کردار ملنے چاہیں۔‘
پاکستان میں فنکاروں کے اداکاری یا گلوکاری چھوڑ کر مذہب کی جانب مائل ہونے کے رجحان پر ہاجرہ کا کہنا تھا کہ ’وہ چاہتی ہیں کہ لوگ ہماری شوبز انڈسٹری کو کسی دوزخ، حرام کام یا بہت غلط چیز کی طرح نہ دیکھیں۔ ہم فنکار ہیں، ہم فن تخلیق کرتے ہیں، اگر مذہبی نکتہ نظر سے بات کریں تو ہمارے خدا نے ہمیں یہ صلاحیت دی ہے تو ہم یہ عوام کو دکھا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہر انسان کی اپنی ذاتی خواہش اور مرضی ہے اور اس کی وہ عزت کرتی ہیں۔ وہ بس یہ چاہتی ہیں کہ ہمارے کام کو ایسے نہ دیکھا جائے کہ جیسے یہ کوئی بہت ہی غلط کام ہے یا پھر جیسے ہم کسی دوسرے دنیا کی مخلوق ہوں کیونکہ ہم نہیں ہیں۔‘