سپریم کورٹ نے انتہائی ڈرامائی انداز میں آج صبح فوجی سربراہ جنرل جاوید قمر باجوہ کی توسیع کو وقتی طور پر معطل کر کے ملک میں سیاسی بھونچال برپا کر دیا ہے۔ ہر کوئی پوچھ رہا ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟
چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اس مقدمے میں مدعی کی عدم دلچسپی کے باوجود کارروائی کرنے کے فیصلے نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ماضی میں اس قسم کی پٹیشنیں آتی رہتی ہوں گی لیکن کسی نے ان کی سماعت کی کوشش نہیں کی۔ اس مرتبہ ایسا مختلف کیوں ہے؟
بعض تجزیہ کار اسے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے چیف جسٹس کو گذشتہ دن اس مشورے کو عملی شکل دینا قرار دے رہے ہیں کہ ملک میں بااثر اور عام شخص کے لیے قانون میں فرق کو ختم کیا جانا چاہیے۔ اب بظاہر ایک سابق اور ایک موجودہ سربراہ کے مقدمات کی سماعت بدھ کو ہو گی اور اس سلسلے میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔
اس معاملے کو الجھاؤ کا شکار کرنے میں حکومت نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفیکشن 19 اگست کو جاری کیا گیا۔ اس کے بعد 21 اگست کو اس کی منظوری دی گئی۔ عدالت میں یہی سوال اٹھا کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر نوٹیفیکشن کیسے جاری ہو گیا اور اگر جاری ہوا تو کیا صدر نے دوبارہ نوٹیفیکیشن جاری کیا یا نہیں۔
معروف سینیئر صحافی اور اینکر عاصمہ شیرازی نے ایک ٹویٹ میں نوٹیفیکشن کی تاریخوں میں ابہام کا سوال اٹھایا۔
President gave me interview on 12 of September and said he has not signed the summary of extension yet as he has not received by that time while notification was issued on 19th Aug #ChiefJustice said the same thing today.... yeh Kia story hai? #COAS #SupremeCourt pic.twitter.com/9U9DrmhQCR
— Asma Shirazi (@asmashirazi) November 26, 2019
نوٹیفیکشن کی تاریخوں سے متعلق ابہام نئے اعلامیے سے حل ہو سکتا ہے، صدر کی جانب سے نیا حکم نامہ جاری کر کے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال، کم سے کم الفاظ میں بھی یہی کہا جائے گا کہ یہاں حکومت کا اناڑی پن صاف دکھائی دیا ہے۔
لیکن وہ سوال جس پر آ کر حکومت کا آرمی چیف کو توسیع دینے کا معاملہ بےمعنی ثابت ہوسکتا ہے وہ ہے توسیع کے کسی قانون کی عدم موجودگی۔ قانون اور آئین میں اس بارے میں کوئی قانون موجود نہیں۔ لیکن یہ توسیع کس قانون کے تحت دی گئی یہاں کچھ کہنا حکومت کے لیے مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سماعت میں اس جانب بھی اشارہ کیا کہ حکومت کو کیسے معلوم کہ آئندہ تین برس کے لیے توسیع ضروری ہے کیونکہ علاقائی صورت حال گھمبیر ہے۔ عدالت نے اسی پر زور دیا کہ اگر مان بھی لیں صورت حال ایسی ہے تو پھر تو ہر فوجی افسر توسیع کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان بار کونسل بھی دریں اثنا چیف جسٹس کے دفاع میں سامنے آئی ہے اور ان کے آج کے فیصلے کے اس نے تائید کر دی ہے۔
یہ طوفان فوج کے اندر ان اہم تعیناتیوں کے ایک روز بعد اٹھا جس میں چیف آف جنرل سٹاف جیسا اہم ترین عہدہ بھی شامل ہے۔ اب جنرل ساحر شمشاد جیسے سینیئر ترین افسر تو کم از کم آرمی چیف بننے کی دوڑ سے بظاہر باہر ہو گئے ہیں۔ یا نہیں؟
عدالت عظمیٰ کی سماعت کے بعد تو جیسے ہر کوئی جنرل باجوہ سے استعفی مانگ رہے ہیں کہ وہ اب متنازع ہو گئے ہیں۔ بعض فوج کے ترجمان کے اس بیان کا حوالہ بھی دے رہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنرل باجوہ توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا انتظامی معاملہ وزیرِ اعظم کے استحقاق میں آتا ہے یا نہیں۔ اگر آتا ہے، تو پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ منتخب جمہوری حکومت، جو پہلے ہی ہر طرف سے دباؤ میں ہے، اس کے پر مزید کاٹنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟
دوسری جانب جعمیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اپنے اتحادیوں کی بھی مدد کے بغیر کراچی سے نکلے کیوں تھے، انہوں نے اسلام آباد میں قیام کس کے کہنے پر کیا، اور پھر وہ چپکے سے اسلام آباد سے چلے کیوں گئے؟ ابھی تو ان سوالات کے جواب بھی نہیں مل پائے کہ اب یہ نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ سینہ اپوزیشن کے سیاست دان ٹھونک رہے ہوں گے کہ ’ہم نہ کہتے تھے!‘ اس بابت مولانا فضل الرحمٰن کا دعویٰ لوگوں کو بظاہر سچ لگنے لگا ہے کہ انہیں حکومت کے خلاف مائنس ون کی ’یقین دہانیاں‘ ملی ہیں۔
آخری اطلاعات تک حکومتی (وفاقی کابینہ کے اجلاس) اور عسکری قیادت نے اس نئی صورت حال سے نمٹنے کی حکمت عملی پر غور شروع کر دیا ہے۔ آئندہ 24 گھنٹے اس سلسلے میں اہم مانے جا رہے ہیں۔