پاکستان میں کچھ وکلا آئے روزمفاد عامہ پر مبنی قانونی معاملات پر عدالتوں میں اپنی طرف سے درخواستیں دائر کرتے رہتے ہیں۔
چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کرنے والے وکیل ریاض حنیف راہی بھی ان میں سے ایک ہیں۔
یہ ان کی پہلی درخواست نہیں بلکہ وہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور بلوچستان ہائی کورٹ چیف جسٹس تقرری سمیت عوامی مفادات کے نام پردرجنوں درخواستیں مختلف عدالتوں میں دائر کر چکے ہیں۔
اس سے قبل بھی ان کی بعض درخواستوں پر اہم مواقع پر سماعت کی گئی مگر اس بار جب سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ان کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو انہوں نے درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی ۔
یہ پہلی بار نہیں بلکہ وہ ماضی میں بھی کئی بار اپنی دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران پیروی سے منحرف ہو چکے ہیں ۔
پاکستان فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا یہ کیس عدالتی تاریخ میں بہت اہم ہے۔ ریاض راہی کی درخواست نے پچھلے دو دنوں میں حکومت کے لیے شدید مشکلات پیدا کی ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران کئی ریمارکس ایسے دیے جن سے حکومت کی سبکی ہوئی ہے۔
ریاض حنیف ایڈووکیٹ کون ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے جب ریاض راہی سے رابطہ کر کے پوچھا کہ آپ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کیوں واپس لینا چاہتے ہیں؟ کیا آپ پر کوئی دباؤ ہے یا کوئی اور وجہ ہے؟ تو انہوں نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا کہ انہوں نے درخواست واپس لینے کی استدعا ضرور کی تھی لیکن اب اسی درخواست پر سماعت جاری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا اس کے علاوہ وہ اس معاملے کی کوئی وضاحت نہیں کریں گے کیونکہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
تاہم ریاض راہی نے اپنے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر رحیم یار خان سے حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایل ایل بی اور ایم اے کیا ہے۔
رحیم یار خان میں وکالت شروع کرنے کے بعد پہلے وہ لاہور اور پھر اسلام آباد آ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست ان کی پہلی درخواست نہیں بلکہ وہ مفاد عامہ کے تحت بہت سی درخواستیں دائر کر چکے ہیں، کئی بار عدالتوں نے ان کی درخواستوں پر فیصلے بھی دیے اور کئی خارج بھی کر دیں۔
اہم درخواستیں اور ان کے فیصلے
ریاض حنیف راہی نے2016 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطوربلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج تعیناتی کے خلاف درخواست دائر کی تھی، جسے رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراضات لگا کر واپس کر دیا۔
تاہم دو سال بعد اچانک مارچ 2018 میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اُن کی اسی درخواست پر اپنے چیمبر میں سماعت کی اور اس درخواست پر اعتراضات ختم کرتے ہوئے سماعت کے لیے اپنی ہی عدالت میں سماعت مقرر کر لی۔
تاہم سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پہلی ہی سماعت پردرخواست مسترد کر دی، جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف اس درخواست پر ملک کی تمام چھوٹی بڑی وکلا تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیاتھا۔
اس کے علاوہ ریاض راہی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کے بعد تقرری اورانہیں ریٹائرمنٹ کے بعد مراعات کے خلاف بھی عدالتوں میں جا چکے ہیں۔
انہوں نے ’سٹی کونسل‘ کے نام سےایک این جی او بھی بنا رکھی ہے جبکہ وہ ’دی جیورسٹ فاؤنڈیشن‘ بھی چلا رہے ہیں۔
ریاض راہی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست بھی اسی فورم سے دائر کی گئی۔
انہوں نے اسلام آباد کو گرین اینڈ کلین کیپیٹل بنانے کی درخواست بھی دائر کی جس پر سی ڈی اے کو شہر کو صاف رکھنے کی ہدایت دی گئی ۔اس کے علاوہ انہوں نے رحیم یار خان میں 31اکتوبر کوہونے والے تیزگام ٹرین حادثے کی انکوائری کے لیے بھی عدالت میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مفاد عامہ کے تحت دائر درخواست پر اگر عدالت سماعت شروع کر دے تو کوئی درخواست گزار عدالت کی مرضی کے بغیر درخواست واپس نہیں لے سکتا،قانونی طور پر عدالت اس درخواست کو حتمی فیصلے تک جاری رکھ سکتی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر درخواست گزار پیروی نہ کرے تو مقدمے پر فیصلہ کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ تو انہوں نے بتایا درخواست گزار کا موقف ان کی درخواست میں موجود ہوتا ہے، وہ دلائل نہ دے اور حاضر نہ بھی ہو تو قانونی طور پر کوئی فرق نہیں پڑتا ، عدالت جو فیصلہ دے اس پر عمل درآمد لازم ہوجاتاہے۔