’تمھاری بیٹی کہاں ہے؟ اسے ہمارے لیے تیار کرو۔‘ یہ الفاظ بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافی کامران (اصل نام نہیں) کے کرب کو ظاہر کر رہے تھے۔
ہم سنجیدہ موضوعات پر بات چیت نہیں کر رہے تھے۔ یہ پاکستان، سری لنکا، بھوٹان، افغانستان، ملائیشیا، بھارت، نیپال، برطانیہ، سویڈن اور آسٹریلیا سے آئے ہوئے صحافیوں کی عام سی بیٹھک تھی۔ کامران کے ان الفاظ سے یہ ہلکی پھلکی گفتگو اچانک تھم گئی اور ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہم اس کے جواب میں کیا کہیں۔
کامران بھی نیپال میں ہونے والی اس میڈیا ورکشاپ میں شامل تھے جہاں اس انڈسٹری کو درپیش مسائل کے علاوہ انسانی حقوق، اظہارِ رائے کی آزادی اور ان تمام مسائل کو زیر بحث لایا گیا جو اس مہذب دنیا کو درپیش تھے۔
کامران نے بھی انہی مسائل پر بات کی، خاص طور پر متنازع اور جنگ زدہ خطوں میں جہاں صحافیوں کو حکومتی جبر، تشدد، گمشدگی، مار پیٹ اور پیلٹ گنز سے ملنے والے زخموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صحافتی ساز و سامان کا نقصان اس کے علاوہ ہے جب کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ انہیں مشتعل مظاہرین کے غضب کو بھی سہنا پڑتا ہے۔
انہوں نے ورکشاپ کے کئی سیشنز میں بڑے پرسکون انداز میں خطاب کیا اور کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بات کی، جن کا وہاں کے عوام اور صحافیوں کو طویل عرصے سے سامنا ہے۔ انہوں نے وادی میں کئی ماہ سے انٹرنیٹ کی بندش کے باعث صحافیوں کو درپیش مسائل پر بھی بات کی جس کے باعث وہ وقت پر خبر بھیجنے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے پولیس کے قہر کا بھی ذکر کیا جس کا سامنا میڈیا کے لوگوں کو اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی کے دوران اکثر کرنا پڑتا ہے۔ وہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بڑے اطمینان سے بات کر رہے تھے اور حاضرین بھی غور سے ان کی بات سن رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’تمھاری بیٹی کہاں ہے؟ اسے ہمارے لیے تیار کرو۔‘ یہ الفاظ بھی انہوں نے جذبات میں آئے بغیر ادا کیے تھے، ان کی آواز مکمل سپاٹ تھی۔ تاہم ان کی سیاہ آنکھوں میں موجود کرب کو محسوس کیا جا سکتا تھا جو ان کے چہرے پر سجی مسکراہت کو جھٹلا رہا تھا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’پولیس پارٹیاں دن یا رات کے کسی بھی پہر گھروں میں گھس آتی ہیں اور خواتین کے بارے میں پوچھتی ہیں، خاص طور پر نوجوان بیٹیوں اور بہنوں کے بارے میں۔ یہ سری نگر اور دیگر شہروں میں معمول بن چکا ہے۔ ایسے واقعات سرد موسم میں مزید بڑھ جاتے ہیں جب سکیورٹی اہلکار شراب نوشی کے بعد مست اور مدہوش ہوتے ہیں۔‘
کامران نے کہا کہ جموں و کشمیر میں عصمت دری کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ان واقعات کی اصل تعداد ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے جو منظر عام پر آتی ہے۔
اگرچہ یہ میرے لیے نئی معلومات نہیں تھیں کیوں کہ ایسی کئی کہانیاں پابندیوں کے باوجود میڈیا پر آتی رہتی ہیں تاہم کامران کے الفاظ کے اثر سے میں خوفزدہ ہو گئی۔
کشمیر کی صورتحال کی منظر کشی کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: ’اگر آپ کی خواتین ہر لمحے ایسے خطرات میں گھری ہوئی ہوں تو اس سے آپ کا خون نہیں کھولے گا؟ کیا آپ انجام سے بے پرواہ ہو کر ہتھیار اٹھانے کے بارے میں نہیں سوچیں گے؟‘
ایک خاتون ہونے کے ناطے میں ان خواتین کے خوف اور اذیت کو سمجھ سکتی ہوں جن کے مردوں کے سروں پر سکیورٹی فورسز نے بندوقیں تان رکھی ہوں اور وہ ان سے ان کی خواتین کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے ہوں۔
’کیا آپ جانتے ہیں کہ کشمیر میں بہت سی خواتین جب باہر نکلتی ہیں تو وہ بوڑھی اور بدصورت نظر آنے کی کوشش کرتی ہیں- اس کوشش کے باوجود بھی وہ ریپ سے نہیں بچ سکیں۔ یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ بعض اوقات ضعیف خواتین کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ وہ (فوجی) کشمیر کی آبادی خصوصاً مردوں کو مغلوب کرنے کے لیے عصمت دری کو بطور ایک ٹول استعمال کرتے ہیں، تاہم اس سے انہیں مدد نہیں ملتی۔ اس کی بجائے وہ عوام میں غم و غصے کو بڑھا رہے ہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ جب ان کشمیریوں کو موقع ملے گا تو وہ ان بدترین جرائم کا بدلہ لیں گے؟‘
کامران کشمیر میں رہتے تھے۔ پہلی نظر میں وہ کسی دوسرے نوجوان کی طرح نظر آتے ہیں جن کا خوبصورت چہرہ اور مدھم آواز آپ کی توجہ مبذول کرا لیتی ہے لیکن ان کی سیاہ جلتی ہوئی آنکھیں آپ کے دماغ میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ آپ ان کی آواز سن کر فوراً اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے پاس بتانے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن وقت بہت کم ہے۔
ان کی سادہ سی کہانی نے کشمیری عوام کو درپیش ہولناکیوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے ان ہولناکیوں کی جو تفصیلات بتائیں وہ ناقابلِ یقین تھیں اور تمام شرکا خاموشی سے یہ سب سن رہے تھے۔ آپ سننے کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں!