عام طور پر پاکستان کے محلِ وقوع اور جغرافیے کو اس کی سب سے بڑی خوبی تصور کیا جاتا ہے، لیکن اب بظاہر ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ اس کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے اور اس وجہ سے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید ترین اثرات کی زد پر آ گیا ہے۔
جرمن واچ نامی عالمی تھنک ٹینک کی جانب سے بدھ کو جاری کردہ عالمی ماحولیاتی اشاریے میں پاکستان کا شمار دنیا کے ان پانچ ملکوں میں کیا گیا ہے جو سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔
صرف پاکستان نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کا پورا خطہ نشانے پر ہے۔ دنیا بھر کے موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر دس ممالک کے فہرست میں سے سات ممالک بشمول پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار یعنی برما، نیپال، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویت نام کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہی ہے۔
موسمیاتی ماہرین کے مطابق غربت، بےروزگاری، بڑھتی آبادی اور موسموں کے تابع زراعت پر انحصار کے باعث دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں جنوب مشرقی ایشیا اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔
اس خطے کا موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کا باعث کیا جغرافیائی محل وقوع ہے یا کوئی اور بھی اسباب ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ماہر موسمیات اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی سے وابستہ ماحولیاتی مشیر ڈاکٹر قمر زمان چودھری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا کی اکثر آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے اور زراعت مکمل طور پر موسموں پر منحصر ہے جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث لمبے عرصے والے موسم اور سالانہ موسم یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں جس کے باعث یہ خطہ موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’اس خطے کی اکثریت انسانی آبادی زراعت کے باعث دریاؤں کے کنارے آباد ہے اور یہ جگہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بارشوں کے وجہ سے سیلاب کی زد میں ہے جو اس خطے کو موسمی تبدیلی کے غیرمعمولی اثرات کے سامنے غیر محفوظ بنانے کا سبب ہے۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید متاثر ہونے دس میں سے سات ممالک کا تعلق اس خطے سے ہے اور اس پورے خطے میں پاکستان کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے جیسا کہ اس سال پنجاب میں کوئی شدید موسمیاتی واقعہ نہ ہونے کے باجود بےموسم کی بارشوں نے زراعت کو شدید نقصان پہنچایا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ بڑھتی آبادی، معاش کے ذرائع کم ہونے کے باعث یہ خطہ شدید متاثر ہوتا جا رہا ہے۔ انھوں نے منگل کو ورلڈ میٹرولاجیکل آرگنائیزیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2019 کرۂ ارض کی معلوم تاریخ میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر گرم ترین سال رہا جس میں جنوری سے اکتوبر تک اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے قبل ریکارڈ کیے گئے اوسط عالمی درجہ حرارت سے 1.1 ڈگری سیلسیئس زیادہ ریکارڈ کیا گیا نیز آنے والے سالوں میں یہ خطہ شدید موسمیاتی اثرات سے متاثر ہو گا اور ساتھ میں آنے والے دہائی گرم ترین رہے گی۔
جرمن واچ نامی عالمی تھنک ٹینک کی گلوبل کلائیمیٹ انڈیکس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 1998 سے 2017 تک آٹھویں نمبر پر تھا، وہ اب 1999 سے 2018 تک رونما ہونے والے موسمیاتی واقعات کے باعث دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر سے پانچویں نمبر پر آ گیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اس عرصے کے دوران پاکستان میں موسمیاتی واقعات کے باعث 10 ہزار اموات ہوئیں اور ملک کو تقریباً چار ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔‘
موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والی پاکستان کی 46 تنظیموں کے اتحاد سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمٹ چینج کی ڈائریکٹر عائشہ خان نےکہا کہ اس خطے کے جغرافیائی محل وقوع، سطح سمندر سے اونچائی، اور اس علاقے میں چلنے والی ہواؤں کے باعث یہ خطہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نشانے پر ہے۔‘
اس خطے کے لیے پیش گوئی کی گئی ہے کہ یہاں آٹھ کروڑ لوگ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوں گے جن میں پاکستان کے دس اضلاع کے لوگ بھی شامل ہوں گے۔ اس پورے خطے میں پاکستان سب سے زیادہ متاثر ملک ہے جس کے وجہ جنگلات کا رقبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھوٹان میں کل رقبے کے 25 فیصد پر جنگلات ہیں جبکہ پاکستان میں تین سے چار فیصد پر بھی جنگلات نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں گنجان آبادی کے باعث بھی مسئلے پیدا ہو رہے ہیں۔ آنے والے وقت میں زرخیز زمین اور پانی آدھا رہ جائے گا اور آبادی دگنی ہو جائے گی۔ صورتحال بہت گمبھیر ہو جائے گی۔‘
موسمیاتی ماہر اور لیڈر شپ فار انوائرنمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ (لیڈ پاکستان) کے سابقہ چیف ایگزیکٹو افسر علی توقیر شیخ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی اثرات پر پاکستان کی تیاری نہ ہونے کے باعث خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
’پاکستانی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت یا کلائیمیٹ ایڈاپٹیشن کی مد میں جی ڈی پی کا ایک فیصد حصہ خرچ کیا جاتا ہے، اگر اس دعوی کو درست مان لیا جائے تو پاکستان کی رینکنگ ابتر کیوں ہوتی جارہی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اس ضمن میں کوئی رقم نہیں لگائی جا رہی۔ وزیراعظم پاکستان کے موسمیاتی تبدیلیوں کے صلاح کار فخر سے بتاتے ہیں کہ پاکستان کی رینکنگ یہ ہوگئی وہ ہوگئی۔ شرم آنی چاہیے یہ فخر کی نہیں شرم کی بات ہے۔ انھیں تو یہ عہد کرنا چاہیئے کہ ان کے دور میں پاکستان کی موسمیاتی رینکنگ میں بہتری لائی جائے گی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس خطے کے دیگر متاثر ممالک میں سے فلپائن جزائر پر مشتمل ہے وہاں ٹائیفون آنا معمول ہے جبکہ بنگلہ دیش زرین ملک ہے مگر پاکستان میں اس ضمن میں کیوں مسائل آ رہے ہیں؟