شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر حالیہ حملوں اور بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں کیا شدت پسند طالبان ملوث ہیں یا واقعی اس میں دیگر گروہ بھی شامل ہیں؟ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک دفعہ پھر شمالی وزیرستان میں شدت پسند طالبان نے ڈیرے ڈال دیے ہیں۔
گزشتہ ایک مہینے کے دوران سکیورٹی فورسز کے قافلوں اور چیک پوسٹوں پر نامعلوم اطراف سے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں اب تک نصف درجن کے قریب ہلاکتیں جبکہ ایک درجن سے زیادہ زخمی بتائے جاتے ہیں۔ چار نومبر کو میرعلی میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک اہلکار ہلاک جبکہ ایک زخمی ہوا تھا۔ 12 نومبر کو تحصیل دتہ خیل میں افغان سرحد کے قریب ایک چیک پوسٹ پر حملے میں تین اہلکار ہلاک جبکہ تین زخمی ہوگئے تھے۔
اسی طرح 13 نومبر کو ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں تین اہلکار ہلاک ہوئے۔ 29 نومبر کو میرانشاہ کے قریب ہمزونی کے علاقے میں سکیورٹی فوسز کی ایک گاڑی پر بارودی سرنگ کے حملے کے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے قریبی علاقے میں موجود 15 عام شہریوں کو گرفتار کیا تھا، جس میں رضا اللہ نامی ایک نوجوان حراست کے دوران ہلاک ہوگیا تھا۔
رضا اللہ کی ہلاکت کے بعد رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور رکن صوبائی اسمبلی میر قلم وزیر کی نگرانی میں میرانشاہ میں ایک دھرنا دیا گیا جو پانچ دن تک جاری رہا، تاہم جمعے کی رات کو مقامی انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا چار نکاتی معاہدے پر ختم کردیا گیا۔
پہلا یہ کہ گشت کے دوران فوج کے ساتھ پولیس اہلکار موجود ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ فوجی قافلے کے سامنے دھماکے کی صورت میں فوج تب تک خود کارروائی نہیں کرے گی، جب تک قبائلی مشران ساتھ نہ ہوں۔ تیسرا یہ کہ شہری علاقوں میں کالے شیشوں والی گاڑیوں پر پابندی ہوگی۔ چوتھا یہ کہ رضا اللہ کے قتل کی تحقیقات کا سلسلہ جاری رہے گا، جس سے وقتاً فوقتاً قبائلی مشران کو آگاہ کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس سربراہ شفیع اللہ نے انڈپینڈٹ اردو کو بتایا کہ پولیس فورس میں مقامی لوگ بھرتی ہوئے ہیں، اس لیے وہ مقامی لوگوں کی پہچان بھی کرسکتے ہیں۔ فوجی قافلوں کے ساتھ پولیس کی موجودگی موثر ثابت ہوگی اور بے گناہ شہریوں کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔
شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد سکیورٹی فورسز کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ قبائلی اضلاع کے تمام علاقوں سے شدت پسندوں کا صفایا کردیا گیا ہے اور اب تمام متاثرین اپنے اپنے علاقوں میں واپس لوٹ سکتے ہیں۔ ضربِ عضب سے پہلے شمالی وزیرستان کو شدت پسندوں کا ایک مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا جہاں نہ صرف القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک کے دہشت گرد موجود تھے بلکہ ازبک چیچن دہشت گردوں کے مراکز قائم تھے۔ مگر اب آپریشن ضرب عضب کے بعد اطلاعات ہیں کہ شمالی وزیرستان میں ایک دفعہ پھر حافظ گل بہادر گروپ کے مقامی طالبان محتلف علاقوں میں آباد ہوگئے ہیں۔
ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے بتایا کہ گزشتہ تین مہینوں سے سرحد کے اُس پار چلے جانے والے حافظ گل بہادر گروپ کے مقامی طالبان واپس شمالی وزیرستان میں داخل ہوگئے ہیں، تاہم پہلے کی طرح ان کے مراکز آباد نہیں البتہ جس شدت پسند کا جس علاقے سے تعلق تھا، وہ وہاں واپس چلا گیا ہے۔
انہوں نے سرکاری اعداد شمار کے حوالے سے بتایا کہ تین ہزار کے قریب شدت پسند جو ضرب عضب کے دوران افغانستان چلے گئے تھے، وہ واپس لوٹ گئے ہیں۔
مذکورہ عہدیدار نے بتایا: ’اب ان کے خلاف کارروائی بھی ایک مشکل کام ہوگا کیونکہ وہ عام شہریوں کی طرح اپنے گھروں میں لوٹ گئے ہیں مگر وہ اب بھی شدت پسندی کے کاموں میں ملوث ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب عوام کا فرض بنتا ہے کہ وہ شدت پسندی کے خاتمے میں فوج کا ساتھ دیں۔‘
شمالی وزیرستان سے رکن صوبائی اسمبلی میر قلم وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انتظامیہ سے جمعرات کو ہونے والے معاہدے کے بعد سے اُمید ہے کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار عام شہریوں کو براہ راست نشانہ نہیں بنائیں گے اور فوجی قافلوں کے ساتھ پولیس کی موجودگی مدد گار ثابت ہوگی، کیونکہ پولیس علاقائی رسم و رواج اور لوگوں کی زبان کو سمجھ سکتی ہے۔
میر قلم کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں ایک دفعہ پھر شدت پسند طالبان آگئے ہیں اور رات کے وقت گاڑیوں میں مسلح پھرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ ایک عرصے سے صرف سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس میں سب سے زیادہ نوجوان طبقہ متاثر ہوا ہے۔
شمالی وزیرستان میں حکام اور اتمانزئی وزیر قبائل کے درمیان موجودہ معاہدے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یہاں شدت پسند طالبان موجود ہیں مگر سکیورٹی اہلکار ان میں اور دیگر عام شہریوں میں فرق نہیں کرسکتے۔