پاکستان کا پہلا ریپیڈ ماس ٹرانزٹ اورنج لائن ٹرین منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔
یہ منصوبہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مکمل ہوا اور منگل 10 دسمبر کو آزمائشی طور پر اورنج لائن ٹرین پٹڑی پر دوڑائی جا رہی ہے۔
ٹرین ڈیرہ گجراں سے علی ٹاؤن تک ٹیسٹ رن کرے گی، جس کے لیے صبح اور شام کے مختلف اوقات طے کیے گئے ہیں۔ ٹیسٹ رن کے دوران ٹرین کی جدید ترین سسٹم سے ہم آہنگی جانچی جائے گی۔
جنرل مینیجر ماس ٹرانزٹ اتھارٹی پنجاب سید عزیر شاہ کے مطابق ٹیسٹ رن کا مقصد منصوبے کے حفاظتی پہلووں کو حتمی شکل دینا ہے۔
سگنلنگ نظام ،سینسرز اور خاص طور پر جی پی ایس کے ذریعے ٹریک پر موجود 27 ٹرینوں کی آمد ورفت کو معمول پر رکھنے کی مشقیں کی جائیں گی۔
عوام کے لیے ٹرین پر سفر کی سہولت اسی وقت دستیاب ہوگی جب پورے نظام کی ہم آہنگی کسی بھی شکوک اور شبے سے بالاتر ہوجائے گی۔
اورنج ٹرین بالآخر ٹریک پر دوڑنے کے لیے تیار ہے لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے اسے کئی تنازعات سے بھی گزرنا پڑا۔
اورنج لائن ٹرین منصوبے میں درپیش رکاوٹیں۔
1 زمین کا حصول
اورنج لائن ٹرین منصوبے کا سنگ بنیاد مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں مئی 2014 میں رکھا گیا۔
پی سی ون بننے کے بعد پہلا چیلنج اس ٹرین کے روٹ پر زمینیں خریدنے کا پیش آیا جس میں کئی مقامات پر روٹ کھلا کرنا تھا لیکن کمرشل زمینوں کے مالکان نے منہ مانگے دام مانگے۔
ملتان روڑ سے چوبرجی اور لکشمی چوک تک زمینوں کا حصول سب سے مشکل تھا، سرکاری اعداد وشمار کے مطابق زمینیں خریدنے کے عمل سے 30 ارب روپے تک لاگت میں اضافہ ہوا۔
2 مارکیٹوں کی مسماری اور تاجروں کا ردعمل
اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے جب 2015 میں تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تو ٹرین کے لیے معلق پل بنانے میں رکاوٹ بننے والی مارکیٹیں مسمار کرنا ناگزیر تھا۔
چوبرجی چوک اور بوہڑچوک سے لکشمی چوک تک مارکیٹیں مسمار کرنے پر تاجروں نے شدید مزاحمت کی اور کئی ماہ تک احتجاج جاری رہا۔ پھر حکومت نے امدادی قیمت میں اضافہ کرکے تعمیراتی کام کا آغاز کیا۔
3 تاریخی عمارتوں کا تحفظ
اورنج لائن ٹرین کے روٹ پر تاریخی عمارتیں بھی رکاوٹ بنیں، جنہیں مسمار کرنا حکومت کے لیے چیلنج بنارہا۔
جی پی او آفس،شالیمار باغ،چوبرجی عمارت،لکشمی بلڈنگ،سپریم کورٹ رجسٹری عمارت کو مسمار کرنا ناممکن تھا۔
یہی وجہ تھی کہ حکومت کو لکشمی چوک سے جین مندر چوک تک روٹ کو زیر زمین کرنا پڑا،جہاں دو سٹیشن بھی بنائے گئے ہیں۔ شالیمار باغ سمیت دیگر تاریخی عمارتوں کو چھیڑے بغیر تعمیراتی مکمل کیا گیا۔
4 عدالتی تنازعات
ماس ٹرانزٹ کے اس منصوبے کو روکنے کے لیے سماجی تنظیمیں اور تحریک انصاف سمیت کئی لوگوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
ان درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے 19 اگست 2016 کو اس منصوبے کے کئی حصوں پر کام روکنے کا حکم دیا۔
اس فیصلے کے خلاف حکومتِ پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو عدالت عظمیٰ نے آٹھ دسمبر 2017کو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے مخصوص مقامات پر تعمیرات کی اجازت دے دی۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ مفاد عامہ کے اس منصوبے کی نگرانی وہ خود کرے گی۔
اس ضمن میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد بھی عدالت عظمیٰ نے کئی بار منصوبہ مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دی لیکن حکومت نے بار بار مہلت طلب کی۔
5 سیاسی تنقید
ن لیگی حکومت کے اس منصوبے کو پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سمیت اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے ’غیرضروری‘ اور ’سفید ہاتھی‘ قرار دیا۔
سیاسی رہنماؤں نے تنقید کی کہ اتنی خطیر رقم صرف ایک منصوبے پر خرچ کر کے عوامی فلاح وبہبود کو نظر انداز کیاجا رہا ہے۔
بعض رہنماؤں نے اس منصوبے کو سابق حکومت کی کرپشن کا ذریعہ بھی قرار دیا، جس کے بعد تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ سامنے آیا۔
اب تنقید کرنے والی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ہی اس منصوبہ کا آزمائشی طور پر افتتاح کر رہی ہے۔
ادھر مسلم لیگ ن نے اس منصوبے کو اپنی حکومت کی کارکردگی ثابت کرنے کے لیے نو دسمبر کو جی پی او چوک میں علامتی طور پر ٹیسٹ رن کا افتتاح کیا، جس میں پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔
عوام کو سفری اجازت اور لاگت
عزیر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن کے مطابق اس منصوبے کا آزمائشی افتتاح ہو رہا ہے۔ ’اس کے بعد بھی تجربات کیے جائیں گے اور 27کلو میٹر روٹ،سٹیشنوں،سگنلزاور دیگر فنکشنز کا معائنہ کیاجائے گا۔‘
انہوں نے بتایا یہ عمل تین ماہ تک جاری رہے گا اور عوام کے لیے اورنج ٹرین میں سفر کی اجازت میں تین ماہ تک کا عرصہ درکار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چین سے تمام 26 جدید ٹرینیں لاہور پہنچ چکی ہیں، مرکزی سٹیشن علی ٹاؤن اور ڈیرہ گجراں میں بنائے گئے ہیں جہاں ٹرینوں کی دیکھ بھال کی جائے گی۔
عزیز شاہ کے مطابق اورنج ٹرین کے ذریعے اڑھائی سے پانچ لاکھ تک لوگ روزانہ سفر کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرین کا ٹکٹ سستا رکھنے کے لیے کرایہ 30 سے 50 روپے تک مقرر کرنے پر مشاورت جاری ہے۔ حتمی فیصلہ ہونے ہر نوٹیفکیشن کردیاجائےگا۔
انہوں نے بتایاکہ سی پیک معاہدے کے تحت مکمل ہونے والے اس منصوبے پر169ارب روپے لاگت آچکی ہے، جس میں 130 ارب روپے معاہدے کے مطابق چینی حکومت نے خرچ کیے جبکہ باقی رقم صوبہ پنجاب کے بجٹ سے دی گئی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے سے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بڑی حد تک مکمل ہوجائے گا کیونکہ میٹرو بس نے ایک بڑا حصہ کور کر رکھا ہے، باقی روٹس پر اورنج لائن ٹرین شہریوں کو سستی سفری سہولت فراہم کرے گی۔