پاکستان میں بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی زیادتی اور بد فعلی کے واقعات جہاں غور طلب ہیں وہیں حل طلب بھی ہیں، لیکن ہم ہر واقعے پر تشویش کا اظہار کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہونے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
بلاشبہ معاملات کبھی بھی ویسے حل نہیں ہوتے جیسے ہم اُن کے حل ہونے کی اُمید کر تے ہیں اور بعض اوقات ہماری اپنی اُمیدیں ہی اُن کے حل میں رکاوٹیں پیدا کر دیتی ہیں۔ لیکن اگر معاملہ ہمارے مستقبل کے معماروں کا ہو تو ہمیں کبھی بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، ہمیں چاہیے ہم آگے بڑھیں، سامنا کریں اور معاملات خود درست کریں۔
ایک سروے کے مطابق: ’پاکستان میں ہر روز 12 سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز رپورٹ کیے جا رہے ہیں،‘ یہ ہمارے لیے انتہائی الارمنگ سچویشن ہے۔
2018 کی عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور بد فعلیوں کے تین ہزار سے زائد کیس رپورٹ کیے گئے ہیں۔آپ اندازہ کیجیے کہ ایک ایسا ملک جس کی 97 فیصد آبادی خود کو مسلمان کہتی ہو اور وہاں پر پچھلے صرف پانچ سالوں میں 17 ہزار معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو۔
دیکھیے ایک بات تو تسلیم کیجیے کہ ایسے ہر واقعے کے پیچھے ہم بطور والدین، بطور اُستاد اور بطور نگران بری طرح ناکام ہوئے ہوتے ہیں، جیسے ہم نے بچوں کے معاملات سے لاپروائی برتی ہوتی ہے، اُنہیں جسمانی یا جذباتی تشدد کا نشانہ بنایا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر ان باتوں پر توجہ نہیں دی جاتی مگر عالمی ہیلتھ آرگنائزیشن انہیں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں میں شمار کرتی ہے۔ عالمی ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی چار اقسام ہیں:
1۔ جسمانی زیادتی
کچھ والدین بچوں کی تربیت میں سخت سزاؤں کو اہم سمجھتے ہیں جیسے جلا دینا، بال کھینچنا یا کٹ لگا دینا۔ایسا کرکے ہم بچوں کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم زبان کے استعمال سے واقف نہیں ہیں یا ہم سمجھنے یا سمجھانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
2۔ جذباتی زیادتی
جب آپ کسی بچے کو معاشرے کے اندر سماجی دلچسپی اور ترقی سے روکیں گے تو وہ جذباتی طور پر ٹارچر ہونا شروع ہو جائے گا، جیسے ہمارا بچوں کی ہر بات کو مسترد کرنا یا نظرانداز کرنا، وعدہ خلافی کرنا، انہیں بات مکمل کرنے سے پہلے ڈانٹ دینا اور ان کے احساسات کا خیال نہ رکھنا، انہیں نالائقی کے طعنے دینا یا گالی دینا اور الزام لگانا یا بے عزتی کرنا۔ ایسا بچہ کبھی بھی آ گے بڑھنے کی بات نہیں کرے گا۔ اس کی باتوں میں واضح ہچکچاہٹ ہوگی اور وہ صحت کے امراض میں مبتلا رہے گا۔
3۔ جنسی زیادتی
انسان کے اندر ایک فطرتی جنسی رغبت ہے، یہ فطرت کا حصہ ہے جسے ہمارے ہاں سمجھنے اور سمجھانے میں مشکل ہوتی ہے اور پھر ہوتا یہ ہے کہ اسی لاعلمی اور لاتعلقی میں ہمارے بچے انسان دشمنوں کے ہتھے چڑ جاتے ہیں۔ دیکھیے سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ جب ایک ڈاکٹر کسی مریض کے مرض کی واضح تشخیص نہیں کرتا، وہ تب تک اس مرض کے علاج کے لیے مریض کو دماغی طور پر رضا مند نہیں کر سکتا۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیاددتی کی عموماً تین اقسام ہوتی ہیں:
1۔ جب کوئی بالغ کسی نابالغ (بچے) کو اپنے ذاتی جنسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
2۔ بچوں سے جنسی سر گرمیاں کروائی جاتی ہیں۔
3۔ جب طاقت ور بچے کمزور بچوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔
ان تینوں کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جیسے ماں باپ بچے کی نگرانی میں کوتاہی برتتے ہیں، بچوں کے اندر ماں باپ کی لاپرواہی کی وجہ سے یا انہیں جنسی افعال کرتے دیکھ کر جنسی اشتیاق پیدا ہوتا ہے، فحش مواد (ویڈیوز اور فلموں) کا استعمال عام کر دیا جاتا ہے، معاشرے کے اندر منشیات کا استعمال بڑھا دیا جاتا ہے یا پھر جسم فروشی کے دھندے پر بازپرس بند ہو جاتی ہے۔
اگر ہم غور کریں تو ایسے بچوں کے رویے صاف بتا رہے ہوتے ہیں کہ وہ جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں:
1۔ اُن کے اندر ڈپریشن ایک حد سے تجاوز کر جاتا ہے۔
2۔ اُن کے کھانے پینے کی روٹین ڈسٹرب ہو جاتی ہے۔
3۔ وہ تنہائی میں رہنا پسند کریں گے۔
4۔ سکول میں ان کی کارکردگی خراب ہونا شروع ہو جائے گی۔
5۔ ممکن ہے کہ خودکشی کی کوشش کریں۔
6۔ سونے کے نام سے ڈر محسوس کریں گے،بے خوابی ہوگی یا ڈراؤنے خواب کی شکایت کریں گے۔
7۔ یا وہ آپ کو جنسی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے دکھائی دیں گے۔
4۔ بچوں کو نظر انداز کرنا
جب کسی بچے کو گھر سے محبت، توجہ اور نگرانی نہیں ملتی تو وہ باہر ان چیزوں کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔
ہم عام طور پر چار طرح سے بچوں کو نظر انداز کرتے ہیں:
1۔ جسمانی غفلت
2۔ جذباتی غفلت
3۔ صحت کے بارے میں غفلت
4۔ تعلیمی غفلت
یہ بات افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ پاکستان میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں میں جنسی زیادتی سرِفہرست ہے اور اس میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ باوجود اس خطرناک حد تک اضافے کے اس 97 فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں عوام نعروں میں، حکمران بھاشن دینے میں، ادارے شائنگ سٹارز بننے میں اور میڈیا ریٹنگ بڑھانے کے چکروں میں مصروف نظر آتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے ’سیکس اوفینڈر رجسٹر‘ سمیت فارنزک سائیکاٹری کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی مدد سے جنسی جرائم میں ملوث افراد پر نظر رکھی جاتی ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں ایسا کوئی ڈیٹا بیس موجود نہیں ہے۔
اس کی مثال آپ سہیل ایاز سے لے لیں جسے پیڈو فائل ہونے کے الزام میں برطانیہ سے جلا وطن کیا گیا تھا۔ اس نے 30 پاکستانی بچوں کے ساتھ نہ صرف جنسی زیادتی کا اعتراف کیا ہے بلکہ ان کی ویڈیوز ڈارک ویب پر فروخت کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔کیا یہ بات معمولی ہے؟کیا اسے محض ایک خبر سمجھا جائے؟ کیا مائیں اپنے بچے ان درندوں کے لیے پیدا کرتی ہیں؟ جب ایسا مجرم ڈی پورٹ ہو رہا تھا تب اس کی تمام دستاویز پاکستانی حکام کو کیوں نہیں ملیں؟ حالانکہ کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی مجرم جو دوسرے ملک میں سزا کاٹ چکا ہو بغیر مکمل دستاویز کے امیگریشن کر سکے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا آپ اِس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا مستقبل کتنا محفوظ ہے؟ سوچیے 2015 میں قصور سے ایک گینگ جو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث ہے پکڑا جاتا ہے اور 2018 میں قصور سے ہی زینب اور اس جیسے درجن بچوں کا قاتل عمران پکڑا جاتا ہے؟
کیا قانون نافذ کرنے ولے ادارے ان تین سالوں میں آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہوئے تھے؟ 2018 کی عالمی رپورٹ کے مطابق 2018 کے پہلے چھ ماہ میں 141 واقعات صرف پنجاب میں ہی رپورٹ ہوئے، جن میں 77 لڑکیاں اور 79 لڑکے تھے۔
یہ صرف وہ کیس ہیں جو منظرعام پر لائے گئے یا جن کو رپورٹ کیا گیا۔ ایسے کئی بچے ہیں جن کا نام والدین منظرعام پر ہی نہیں لاتے۔ اِن رپورٹوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کا مسقبل کتنا غیر محفوظ ہے۔ کیا یہ الارمنگ سچویشن قانون نافذ کرنے ولے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں ہے؟
حکومت کو چاہیے کہ سخت سے سخت قانون بنا کر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اولین کردار ادا کرے۔ ایسے مجرموں کو سرعام پھانسی دینی چاہیے۔ اس امر سے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ وحشیانہ سزا ہی اس وحشیانہ جرم کا سدباب کر سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یہ سزا ایسے مجرموں کو کیوں نہیں دی جاتی؟ آپ کو تعجب ہوگا کہ پاکستان میں کسی انسان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی سزا محض سات سال کی قید ہے اور اگر کو ئی شخص جانوروں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا پکڑا جاتا ہے تو اُسے سزائے موت دی جاتی ہے۔ کیا ہماری نظر میں انسان کی قیمت جانوروں سے بھی کم ہے؟
حکومت کو چاہیے کہ جس طرح اپنے مفادات کے لیے آئین میں ترمیم کی جاتی ہے اسی طرح عوام کے مفادات کے لیے بھی اس میں ترمیم کرے۔ حکومت کے فرائض بڑھنے سے والدین کے فرائض کسی صورت کم نہیں ہوتے۔
والدین کو چاہیے وہ بچوں کو ابتدائی تعلیم سے آگاہی دیں۔اُنہیں حفاظتی تدابیر سے روشناس کروایا جائے۔ انہیں سکھایا جائے کہ وقت آنے پر اپنی حفاظت کیسے کرتے ہیں۔ اگر آج ہم اپنے بچوں کا بچاؤ نہیں کرتے تو کل ہمارے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔