میں سوشل میڈیا پر موجودہ ناکارہ اور ناکام جمہوریہ کو #ریجیکٹڈ_جمہوریہ کہتا ہوں۔ پچھلے دو ہفتوں میں جو کچھ ہوا کیا یہ اس بات کی گواہی نہیں ہے۔ پاکستان کے امیر ترین آدمی ملک ریاض نے انگلستان کے ایک ادارے سے معاہدہ کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان کی تسلی کرنے میں ناکام رہے کہ ان کے پاس 190 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم کہاں سے آئی اور یہ رقم دے کر ان کی جان بخشی ہوئی۔
چونکہ یہ رقم پاکستان سے گئی تھی اس لیے یہ ہمیں منتقل کر دی گئی، لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ جو املاک خریدی تھیں وہ میاں نواز شریف کے صاحبزادوں کی تھیں، یعنی ان کے درمیان کاروباری روابط ہیں۔ اس میں بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے اشرافیہ ہمیشہ ایک دوسرے کے دوست رہے ہیں، مگر جو رقم آئی وہ ملک کو نہیں ملی بلکہ ملک صاحب پر جو جرمانہ سپریم کورٹ نے لگایا تھا اسے ادا کرنے میں استعمال ہوگی۔ یعنی سندھ کی جو اراضی پی پی پی کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن ہاؤسنگ سکیم کو دی، اس میں قواعد کی خلاف ورزی تھی ورنہ جرمانہ کس بات کا۔ ملک صاحب خود بھی بتا چکے ہیں کہ ان کے زرداری صاحب سے کاروباری تعلقات ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی یہ مناسب نہیں سمجھا کہ کسی سرکاری عہدیدار کو سرکاری زمین اونے پونے بیچنے پر سزا دی جائے۔
چلیں پرانی پارٹیاں تو کرپٹ ہیں مگر بدعنوانی کے خلاف تحریک کی علمبردار پی ٹی آئی حکومت نہ صرف ملک صاحب کی مدد کر رہی ہے بلکہ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایسیٹ ریکوری سیل کے روح رواں شہزاد اکبر کئی مہینے انگلستان میں رہے مگر کسی کو نہیں معلوم کہ وہ وہاں کیا کر رہے تھے۔ وزیر اعظم صاحب نے بھی حکم جاری کیا ہے کہ اس معاملے پر خاموشی اختیار کی جائے اور حقائق قوم سے مکمل طور پر چھپائے جائیں۔
یہ سارا معاملہ اتنی خوبصورتی سے طے ہوا کہ عمران خان نے شہزاد صاحب کو ترقی دی اور شاید ملک صاحب بھی اس پر خوش ہیں، مگر کرپشن ختم کرنے کا ذمہ دار ریاستی ادارہ جس کے چیئرمین کی تعیناتی میں بھی کئی رپورٹس کے مطابق مبینہ طور پر ملک صاحب کی حمایت حاصل تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس میں بھی حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ عہدے حاصل کرنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ چیئرمین صاحب بھی اس سارے معاملے میں کرپشن نہیں دیکھ پا رہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہا ہے کہ ویڈیو سکینڈل کیس میں ان کے عدالتی حکم پر عمل کرنا ان پر لازم نہیں ہے۔ جس وقت سپریم کورٹ اس درخواست کو سن رہی تھی اسی وقت میں نے آپ سب کو بتایا تھا کہ کورٹ اپنا وقت ضائع کر رہی ہے اور اب چیف جسٹس صاحب نے اس کی توثیق کر دی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں کہ عدالت نے وقت کیوں ضائع کیا۔
کسی جمہوریہ کو اس وقت قابل عمل کہا جا سکتا ہے جب اس کے تین اہم ستون پارلیمان یا مقننہ، عدلیہ اور منتخب حکومت کسی حد تک کام کر رہے ہوں جبکہ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ریاستی ادارے اور میڈیا اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہوں۔ موجودہ جمہوریہ میں ان میں سے ایک بھی چیز کام نہیں کر رہی۔ اس میں حزب اقتدار اور اختلاف کوئی نہیں ہے اور نہ ریاستی ادارے ہیں جو عوام اور آئین کا تحفظ کریں۔ بس ایک حکمران اشرافیہ ہے جو اپنے مفاد میں کام کرتی ہے جبکہ عوام بچاری غربت، بیروزگاری اور بنیادی ضروریات کو ترس رہی ہے۔ کیا یہ #ریجیکٹڈ_جمہوریہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟
اب نہیں جب سے یہ جمہوریہ بنی ہے مسلسل ناکام ہے۔ آئین کے نفاذ کے بعد پہلا الیکشن یہ نہ کرواسکی۔ جب مارشل لا لگا تو سپریم کورٹ جو اس جمہوریہ کی ضامن ہے اسے جرنیلوں سے نہ بچا سکی بلکہ انہیں تحفظ فراہم کیا۔ سیاست دان نہ صرف مارشل لا حکومت کا حصہ بنے بلکہ اکثر اسی دور میں حکمرانی کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوئے۔
جب منتخب حکومت آئی بھی تو اسی کوشش میں لگے رہے کہ اسے کسی بھی صورت گرا کر خود اقتدار میں آ جائیں۔ پچھلے 12 سال سے پارلیمان تو مدت مکمل کر رہی ہے مگر وزیراعظم اب بھی گھر بھیجے جا رہے ہیں جس میں سپریم کورٹ آگے آگے ہے۔ جو فیصلے ان عدالتوں نے دیئے ان پر اب تک سوالات اٹھ رہے ہیں۔
تمام سیاسی جماعتیں موجودہ ناکام جمہوریہ کی ذمے دار ہیں، اس لیے انہیں یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ آپس میں بیٹھ کر مک مکا کریں۔ اب ایک ایسی مذاکراتی ٹیبل لگے گی، جس میں عوام کے حقوق کی آواز اٹھانے والے بھی موجود ہوں گے۔ اب مذاکرات اس بات پر ہوں گے کہ نئی جمہوریہ کے خدوخال کیا ہونے چاہییں۔ ضرورت اِن ہاؤس تبدیلی کی نہیں بلکہ ہاؤس تبدیل کرنے کی ہے۔
میں اپنے پی ٹی آئی کے پرانے دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پارٹی ختم ہو چکی مگر مقصد کا حصول اب بھی ہمارے سامنے ہیں۔