ٹوئٹر پہ وائرل ہونے والی یہ ویڈیو سعودی فنکار علی کلاخ کی ہے۔
— K l a 5 (@kla5i) May 8, 2020
علی اپنے فن کا مظاہرہ خالی اور غیر آباد جگہوں پہ کرتے ہیں۔
دیواروں پر تصویریں بنانے کا یہ فن گرافٹی کہلاتا ہے۔ علی اپنے علاقے کی نسبت سے ’کلاخ‘ کہلاتے ہیں۔
طائف کے نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والے علی کلاخ نے سب سے پہلے خالی عمارتوں اور ویران جگہوں پر اپنی پسندیدہ تصویریں بنانی شروع کیں۔ ریاض شہر کی ایک پرانی عمارت پر جب ان کی گرافٹی خراب کی گئی تو سعودی وزارت ثقافت نے بھی ان سے رابطہ کیا۔
ایک انٹرویو میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ اپنے فن کے مظاہرے کے لیے وہ شہر کی دیواریں ہی کیوں منتخب کرتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک طرح کی عوامی نمائش ہوتی ہے۔ ’جس طرح ایک بچہ دیوار پہ کچھ بھی بنا دیتا ہے اور اسے ہر آتا جاتا دیکھتا ہے، عین اسی طرح ایک فنکار کے لیے اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی بنائی گئی چیزیں براہ راست لوگوں کے سامنے ہوں، وہ انہیں دیکھ سکیں اور پسند کر سکیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی کی دیوار پر پینٹ کرنے سے پہلے اجازت لیتے ہیں یا کہیں بھی پینٹ کر دیتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ ویران جگہیں اسی لیے منتخب کرتے ہیں کہ عموماً ان کے مالکوں کو ایسی تصویروں پر زیادہ اعتراض نہیں ہوتا۔
بعض اوقات آتے جاتے لوگ ان کی تصویروں کو بگاڑ بھی دیتے ہیں۔ کلاخ کہتے ہیں کہ ایک بار اپنی تصویر مکمل کرنے کے بعد میں اس کی طرف سے بے غم ہو جاتا ہوں۔
’اب وہ عوام کی ملکیت ہوتی ہے، جو مرضی اس کے ساتھ بگاڑ کیا جائے، بننے کے بعد وہ چیز شہر کے لوگوں کی ہو جاتی ہے اور مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے بگاڑا جائے یا اسے سرے سے مٹا دیا جائے۔ ‘
جب علی سے پوچھا گیا کہ وہ زیادہ تر خواتین ہی کی تصویریں کیوں بناتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ آرٹسٹ سے اس کے فن کی وضاحت نہیں مانگی جا سکتی۔ ’یہ انسانی تاریخ کا قدیم ترین فن ہے۔ غاروں میں انسان دیواروں پر تصویریں بنایا کرتا تھا، اس وقت وہ بول بھی نہیں سکتا تھا، تو فنکار اپنا فن تصویر بنا کر مکمل کر دیتا ہے۔‘
خود کو بین الاقوامی طور پہ سعودی عرب کی پہچان سمجھے جانے اور مشہور گرافٹی آرٹسٹ بینکسی سے تشبیہہ دیے جانے پر علی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ ان کے لیے ایک اعزاز ہے۔
انہوں نے دوران انٹرویو اپنی ذاتی زندگی کی زیادہ تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا وہ اپنے فن کی مناسبت سے پہچانے جانا چاہتے ہیں۔ ان کی اپنی زندگی کچھ خاص اہم نہیں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ عریبیہ