سنگین غداری کا مقدمہ سننے والی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار احمد نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو گرفتار کر کے سزائے موت پر عمل کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر مجرم مردہ حالت میں پایا جائے تو لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک تک گھسیٹ کر لایا جائے اور وہاں تین دن تک لٹکایا جائے۔
جمعرات کو جاری ہونے والے خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اقرار کیا کہ اس طریقۂ سزا کا (قانون میں) کہیں ذکر نہیں، تاہم اسے اس لیے ضروری قرار دیا گیا کیوں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے اور اگر سزا سے پہلے مجرم کی موت واقع ہو جاتی ہے تو سزا پر عمل کا سوال اٹھے گا۔
تین رکنی بنچ میں شامل باقی دو ججوں نے جسٹس وقار کے تحریر کردہ فیصلے میں مجرم کی لاش کو گھسیٹنے اور لٹکانے سے متعلق پیرا 66 سے اختلاف کیا۔
جسٹس نذر اکبر نے پورے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے سابق صدر کی سزائے موت کے خلاف فیصلہ دیا۔ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا الزام ثابت کرنے میں پوری طرح ناکام رہا۔
دوسری طرف جسٹس شاہد کریم نے فیصلے کے پیرا گراف 66 اور 67 سے اختلاف کرتے ہوئے مشرف کو غداری کی سزا کی حمایت کی۔
’مشرف کو بیان دینے کا پورا پورا موقع دیا‘
تفصیلی فیصلے میں مزیدکہا گیا کہ مشرف کو مقدمے کی سماعت کے دوران اپنا بیان دینے کا پورا پورا موقع فراہم کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ مقدمے کی کارروائی چھ برس تک چلتی رہی۔
فیصلے کے مطابق تمام تر موقعے ملنے کے باوجود مجرم مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے رویے سے قانون اور قانونی اداروں کی ہتک کرتے رہے۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ عدالت نے بارہا مشرف کو موقع دیا کہ وہ ٹرائل کا حصہ بنیں،وہ ٹرائل کے شروع سے ہی بار بار اور ہٹ دھرمی کے ذریعے کیس میں تاخیر اور ٹرائل سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے نے مشرف کی غیر موجودگی میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے ایک اور کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر ضابطہ فوجداری کی شق 366(2) سیشن ٹرائل روک دیا جاتا ہے جب ملزم موجود نہ ہو۔
’شق چھ آئین کی حفاظت کا واحد ذریعہ‘
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین پاکستان کی شق چھ اس دستاویز کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے، جو ریاست اور اس کی عوام کے درمیان سماجی معاہدے کو توڑنے والوں سے نمٹتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئین کے بنانے والوں کا شق چھ میں غداری کی سخت سزا موت تجویز کرنے کا مقصد آئین کے اندر ہی اس کی حفاظت کا طریقہ کار ڈالنا تھا اور آئین سے غداری کا مقدمہ چلانا ایک آئینی ضرورت بن جاتی ہے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق: استغاثہ نے جو ناقابل تلافی اور مضبوط شواہد پیش کیے ان کی بنیاد پر عدالت اس فیصلے پر پہنچتی ہے کہ مجرم نے سنگین غداری کا ارتکاب کیا اور سخت ترین سزا کا مستحق ہے۔
فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ تین نومبر 2007 کو مجرم کے پاس آئین کی معطلی کے علاوہ کئی دوسرے قانونی راستے بھی موجود تھے، جن میں ججوں کا سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے احتساب، ملک میں اندرونی انتشار یا جنگ کی صورت میں قانونی ایمرجنسی کا نفاذ، بنیادی حقوق کی معطلی اور کسی صوبے میں آئینی مشینری کی ناکامی جیسے طریقے شامل ہیں۔
’سپریم کورٹ پہلے ہی مشرف کو اکیلے سنگین غداری کا ذمہ دار قرار دے چکی تھی‘
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی مشرف کو اکیلے سنگین غداری کا ذمہ دار قرار دے چکی تھی۔
سنگین غداری کے معنی کا ذکر کرتے ہوئے فیصلے میں آکسفورڈ ڈکشنری کا حوالہ دیا گیا، جس کے مطابق ہائی ٹریزن سے مراد ملک کو دھوکا دینا، خصوصا ًفرما روا کو قتل کر کے یا حکومت کو ہٹا کر یا کسی شخص یا کسی چیز کو دھوکا دینا۔
ملزم کی عدم موجودگی میں سماعت جاری رکھنے کا جواز
ملزم کی عدم موجودگی میں سماعت جاری رکھنے کے اعتراض پر خصوصی عدالت نے سپریم کورٹ کے یکم اپریل 2019 کے اُس حکم کا حوالہ دیا جس میں اسے ملزم کی غیر موجودگی میں سماعت جاری رکھنے کا کہا گیا تھا۔
اس فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ ایک مرتبہ جب سماعت شروع ہو جاتی ہے تو بیماری، وکیل کی تبدیلی یا خصوصی عدالت کے خیال میں ملزم کے رویے کی وجہ سے، جس کا مقصد تاخیر کرنی ہو، عدالتی کارروائی جاری رہنی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے سیکشن نو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا خصوصی عدالت ایسے ملزم کے دفاع کے لیے ایڈووکیٹ تعینات کرکے سماعت جاری رکھے۔
سپریم کورٹ کے مطابق ایسا کرنے سے مقدمے کی صحت یا اس کے فیئر ہونے پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس کا اکرام اللہ بمقابلہ ریاست مقدمے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ملزم مفرور ہونے کی صورت میں اپنا موقف پیش کرنے کا حق کھو دیتا ہے۔
خصوصی عدالت کے مطابق اس نے اعلیٰ عدالت کے اس فیصلے کی روشنی میں سماعت جاری رکھی۔
’آئین کی معطلی میں دوسرے بھی شامل تھے، مشرف کا یہ دعویٰ بے بنیاد‘
فیصلے میں مشرف کی طرف سے یہ دعویٰ کہ تین نومبر 2007 کو انہوں نے صرف اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر آئین معطل نہیں کیا بلکہ اس میں اس وقت کے وزیر اعظم، وفاقی وزرا اور اہم افراد کی آرا بھی شامل تھی، کے متعلق کہا گیا کہ سپریم کورٹ یہ مسئلہ تفصیل سے سننے کے بعد حل کر چکی ہے، حتیٰ کہ اس حوالے سے ایک نظرثانی کی اپیل بھی رد ہوئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا اگرچہ مشرف نے جرم، اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل چھ(2)اے جس کے تحت ملک کی کوئی بھی اعلیٰ عدالت سنگین غداری کی توثیق نہیں کرے گی، کے بعد کیا۔ لیکن اس ترمیم کا آئین میں ڈالا جانا ثابت کرتا ہے کہ سنگین غداری کتنا بڑا جرم ہے۔
’اُس وقت کی اعلیٰ فوجی قیادت بھی برابر کے شریک‘
ماضی کے مارشل لاؤں کا ذکر کرتے ہوئے خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگر اس وقت عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو متعارف نہ کرایا ہوتا اور قابضین کے خلاف ایکشن لیا ہوتا تو قوم کو تین نومبر 2007 جیسا دن نہ دیکھنا پڑتا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ملزم نے سہولت کاروں اور معاونین کے حوالے سے اقرار کیا ہے مگر پھر بھی مدعی (وفاقی حکومت) نے شریک ملزموں کو کیس کا حصہ نہیں بنایا جس کی وجوہات مسلمہ ہیں۔
فیصلے کے مطابق اس وقت کی کور کمانڈر کمیٹی بشمول تمام یونیفارم میں افسران جو ملزم کی ہر جگہ اور ہر وقت حفاظت کر رہے تھے، ملزم کے اقدام میں برابر کے شریک ہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگر یہ مان لیا جائے کور کمانڈرز سمیت ملٹری کی ہائی کمانڈ ان اقدامات میں شامل نہیں تھی تو کیوں وہ وردی میں موجود شخص کو روکنے میں اور پاکستان کے آئین کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے۔
اختلافی نوٹ
جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ مشرف کے خلاف جرم ثابت کرنے میں ناکام رہی، لہٰذا وہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے لکھے ہوئے فیصلے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے ملزم کو سزا کا حق دار نہیں سمجھتے۔
انہوں نے اپنے نوٹ میں آئین کے آرٹیکل چھ کا ذکر کرتے ہوئے کہا اس آرٹیکل میں معطل کا لفظ 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے داخل کیا گیا جبکہ مشرف نے 2007 میں آئین کو معطل کیا تھا اور یوں آئین کی معطلی سنگین غداری کے زمرے میں نہیں آتی۔
اسی طرح انہوں نے کہا استغاثہ نے مشرف پر پانچ الزامات لگائے جبکہ تین نومبر 2007 کو صرف دو جرم سرزد ہوئے، باقی تین جرائم 2010 اور اس کے بعد ہوئے، اس لیے یہ سارے الزامات ملا کر سنگین غداری کے لیے راہ ہموار نہیں کرتے۔
خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد مشرف آئندہ 30روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
تاہم چونکہ تفصیلی فیصلے میں انہیں گرفتار کر کے سزا پر عمل درآمد کا ذکر ہے، لہٰذا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا معاملہ اتنا سادہ نہیں رہا۔
موجودہ صورت حال میں دو امکان ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارےکوشش کر کے مشرف کو بیرون ملک سے گرفتار کریں، اور اس دوران سابق صدر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں۔
چونکہ وہ اس وقت ملک سے باہر اور زیر علاج ہیں، تو ایسے میں ان کی گرفتاری جلدممکن نہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وہ پاکستان آئیں اورخود کو قانون کے حوالے کریں۔ ان کی بیماری کے باعث یہ آپشن بھی خارج از امکان لگتا ہے۔
تاہم ان کے پاس تیسرا آپشن بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کریں اور صدر مملکت کو معافی کی درخواست دیں۔
پاکستان کے آئین کے تحت صدر مملکت سزائے موت کی سزا کو مکمل طور پر ختم یا کم کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ مشرف نے تین، نومبر2007 کو آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ان کی رہائش گاہوں پر نظر بند کر دیا تھا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے دوران پرویز مشرف کے خلاف آئین کی معطلی کی پاداش میں سنگین غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا، جسے سننے کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی۔
خصوصی عدالت نے چھ سال تک مقدمے کی سماعت کی اور منگل کے روز مختصر فیصلہ سنایا تھا۔